ہمارے سیاست دان عہدہ سنبھالتے ہوئے حلف اٹھاتے ہیں کہ وہ آئین اور قانون کے مطابق، بغیر کسی خوف و ہراس کے یا کسی کے ساتھ محبت یا نفرت کے جذبات کے بغیر جملہ لوگوں کی خدمت کریں گے۔ ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے جو حلف اٹھایا ہے وہ غیر متعلق ہوگیا ہے۔ انہوں نے تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی اختیار کی ہے اور اپنے نشانے پر لگائے گئے گروہوں کے خلاف بلڈوزر Bulldozer چلانے کا سہارا لے رہے ہیں۔ Under the Reign of Bulldozer
بی جے پی کی حکمرانی والی کچھ ریاستوں نے عمارات مسمار کرنے کی ایک مہم شروع کی ہے تاکہ اپنے مخالفین کو سبق سکھا سکے۔ ایسا کرکے حکمرانوں نے اپنے شہریوں کو قدرتی انصاف سے محروم کر دیا ہے۔ جیسا کہ الہ آباد ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس گووند ماتھر نے بجا طور پر نشاندہی کی کہ ان انتہائی غیر منصفانہ انہدامی کارروائیوں کا مقصد اقلیتوں میں خوف پیدا کرنا ہے۔
یوپی کے پریاگ راج میں جہاں حالیہ تشدد سے سارا شہر دہل اٹھا، تشدد کے مبینہ مرکزی ملزم محمد جاوید کے گھر کو مقامی ادارے نے منہدم کر دیا تھا۔ انتظامیہ اس کارروائی کا دفاع کرتی ہے اور دعویٰ کرتی ہے کہ مکان ایک غیر قانونی ڈھانچہ تھا جس کے انہدام کیلئے پیشگی اطلاع بھی دی گئی تھی اور مناسب طریقہ کار پر عمل کیا گیا تھا۔ مسمار شدہ مکان دراصل جاوید کی بیوی کے نام تھا۔ جس نے بروقت ہاؤس ٹیکس اور واٹر ٹیکس بھی ادا کر دیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ قبل از تاریخ نوٹس صرف انہدام کے ارادے سے جاری کئے گئے تھے۔ اسی طرح اتر پردیش کے سہارنپور اور کانپور میں بھی بلڈوزر چلائے گئے۔
مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے پہلے ہی واضح طور پر کہا تھا کہ غیر قانونی ڈھانچوں کو منہدم کرنے سے قبل پیشگی نوٹس جاری کیا جانا چاہئے۔ عدلیہ کا مسلم اصول ہے کہ دوسری فریق کی بھی شنوائی ہونی چاہئے۔ اگر حکومت پراسیکیوٹر اور جج دونوں کے طور پر کام کرتے ہوئے اپنے خلاف احتجاج کرنے والے شہریوں کو تحتۂ مشق بنانے کیلئے قانون کو ایک اوزار کے طور پر استعمال کرتی ہے، تو اسکا نتیجہ صرف افراتفری کی صورت میں سامنے آئے گا۔
یہ بھی پڑھیں:
Prophet Remarks Row: پریاگ راج تشدد معاملے میں جاوید محمد پمپ کا گھر منہدم
اس صورت حال پر سنگین تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے سابق ججوں سمیت بارہ نامور قانون دانوں نے چیف جسٹس آف انڈیا کو ایک خط لکھا ہے جس میں رہائش گاہوں کو بلڈوز کے ذریعہ منہدم کرنے کو آئین کا مذاق اڑانے کے مترادف قرار دیا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے کو ختم کرنے کے لیے عدالت عظمیٰ سے مداخلت کی درخواست کی۔ عدلیہ عوام کے لیے واحد حفاظتی ہتھیار بنی ہوئی ہے جب ریاستی سرپرستی میں تشدد عام لوگوں کی دہلیز پر پہنچ گیا ہو تو عدلیہ کو چاہئے کہ ان حالات میں عام لوگوں کے لیے ایک سہارا بنے۔
حال ہی میں مدھیہ پردیش کے کھرگون میں دل دہلانے والے فرقہ وارانہ فسادات پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے، مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ نروتم مشرا نے خبردار کیا تھا کہ پتھراؤ کے لیے استعمال ہونے والے مکانات کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا جائے گا۔ جب تشدد پھیلتا ہے تو اس کے ذمہ داروں کی نشاندہی کی جانی چاہیے۔ ان کا جرم عدالتوں میں ثابت کر کے سزا دی جانی چاہئے۔
حال ہی میں، یوپی کے ایک بی جے پی رکن اسمبلی، شلبھمنی ترپاٹھی نے ٹویٹر پر ایک ویڈیو پوسٹ کیا ہے جس میں خاکی پوشاک میں ملبوس افراد چند نوجوانوں کو نہایت ہی بے دردی سے پیٹ رہے ہیں۔ اس ویڈیو کے عنوان میں انہوں نے لکھا ہے کہ یہ فسادات کرنے والوں کیلئے جوابی تحفہ ہے۔ اسی طرح اتر پردیش کے نائب وزیراعلیٰ برجیش پاٹھک نے دھمکی دی ہے کہ بلڈوزر شورش پیدا کرنے والوں کے تعاقب میں رہیں گے۔
یہاں اس مقدمے کا تذکرہ کرنا ضروری ہے جو گجرات کے ڈپٹی اسپیکر جیتا بھائی اہیر کے خلاف ریزرو جنگل میں مبینہ طور پر ایک عمارت تعمیر کرنے کے الزام میں درج کیا گیا تھا۔ عدالت نے انہیں نوٹس جاری کر دیا۔ ایسے کئی بااثر افراد کو تجاوزات کے الزامات کا سامنا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس طرح کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی جبکہ حکومت احتجاجی آوازوں کو دبانے کے لیے بلڈوزر چلاتی رہی ہے۔
یوپی، ایم پی، دہلی، گجرات، اتراکھنڈ اور آسام میں بلڈوزر انتہائی تیز رفتاری سے دوڑ رہے ہیں۔ کرناٹک کے لیڈر بھی یوپی ماڈل پر عمل کرنے کے خواہشمند ہیں۔ مدھیہ پردیش کے اجین میں چلائے جانے والے بلڈوزر پر سپریم کورٹ کے سابق جج دیپک گپتا نے حیرت و استعجاب میں سوال پوچھا کہ "اگر سیاست دان اور پولیس اس طرح قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیں تو عام آدمی کہاں جائے گا؟ " یہی سوال ہر کسی کے ذہن میں گھوم رہا ہے۔ شاید بی جے پی ہائی کمان کو اس سوال کا جواب دینا چاہیے۔