ترک صدر کی جانب سے استنبول میں تاریخی آیا صوفیا میوزیم کو مسجد میں تبدیل کرنے کے فیصلے پر بین الاقوامی سطح پر کافی احتجاج دیکھنے کو مل رہا ہے۔ یہ ایک ایسا فیصلہ ہے، جس نے اُس ماڈرن ترکی کی بنیادوں کو چوٹ پہنچادی ہے، جس کی بنیاد بیسویں صدی میں اتا ترک نے ڈالی تھی۔ ہمسایہ ممالک یونان سے لیکر امریکا اور یورپی یونین سے لیکر روس تک سب نے ترک صدر کے اس فیصلے پر تشویش کا ظاہر کیا اور اظہارِ احتجاج کیا۔ جبکہ فرانس کے پوپ نے اس پر اپنے ردعمل میں کہا کہ انہیں ’’شدید تکلیف‘‘ ہوئی ہے۔ یونیسکو نے کہا ہے کہ اس عظیم عمارت کو عالمی ورثے کا درجہ دیا گیا ہے، لیکن اب اسے بدلا جائے گا۔ یونیسکو نے ساتھ ہی خبردار کیا ہے کہ اس عمارت سے متعلق کوئی بھی ایسا فیصلہ نہ کیا جائے جس کی وجہ سے اس کی عالمی اہمیت پر اثر پڑے گا۔‘‘
تاہم چوبیس جولائی سے آیا صوفیا کے دروازے عبادت گزاروں کے لئے کھول دیئے جائیں گے اور نمازِ جمعہ بھی اس تاریخی اہمیت کی حامل عمارت میں ادا کی جائے گی۔ جوں ہی ترکی کی سب سے بڑی عدالت نے اتفاقِ رائے سے 1934ء کے کابینہ اُس فیصلے کو کالعدم قرار دیا تھا، جس کے تحت آیا صوفیا کو میوزیم میں تبدیل کیا گیا تھا، ترک صدر طیب اردگان نے دس جوالائی کو چھٹی صدی کے اس بازنطینی کلیسا کی عمارت کو واپس مسجد میں تبدیل کرنے کے حکم پر دستخط کردیئے اور اسے عبادت کے لئے کھول دینے کا اعلان کیا۔ آیا صوفیا استنبول میں توجہ کا مرتکز مقام ہے۔ ترکی خود بھی جغرافیائی لحاظ سے یورپ اور ایشاء کے مرکز میں واقع ہے۔ آیا صوفیا بیک وقت مغربی اور مشرقی تہذیبوں کی علامت ہے۔ اسے ایک کلیسا کی حیثیت سے تعمیر کیا گیا تھا لیکن بعد میں اسے خلافت عثمایہ کے دور میں مسجد میں تبدیل کیا گیا تھا۔ جب اتا ترک برسر اقتدار آگئے تو انہوں نے اسے ایک میوزیم میں تبدیل کردیا۔ اس کے بعد اسے ترکی کے سیکولرازم کی ایک علامت سمجھا جانے لگا تھا۔
بھارت آیا صوفیا کو دوبارہ مسجد میں تبدیل کرنے کے اقدام کے خلاف وائٹ ہاوس سے لیکر روس کے ایوان اقتدار تک اور یورپین یونین تک مختلف ممالک کے اظہارِ احتجاج میں شامل نہیں ہوا۔ طیب اردگان بالخصوص گزشتہ ایک سال سے سعودی عرب اور ایران کو للکارتے ہوئے خود کو عالمِ اسلام کے لیڈر کے بطور پیش کررہے ہیں۔ وہ عالمی فورمز کا استعمال کرتے ہوئے بھارت کو ہدف تنقید بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ہیں۔ پہلے وہ بھارتی آئین میں جموں کشمیر سے متعلق دفعہ 370 کو ہٹانے کے خلاف بولتے تھے اور اسکے بعد انہوں نے دہلی فسادات میں مسلمانوں کا ’’قتلِ عام‘‘ پر بھارت کو ہدف تنقید بنایا۔ اس پس منظر میں یہ بھارت سے توقع ہے کہ وہ موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آیا صوفیا کو مسجد میں واپس تبدیل کرنے کے فیصلے پر اردگان کی تنقید کرے۔ اردِگان نے بھارت سے متعلق اپنے ایک بیان میں کہا تھا، ’’ ایک ملک جو خود کو اپنی وسیع آبادی کی وجہ سے مضبوط قرار دے رہا ہے، حقیقت میں مضبوط نہیں ہے۔‘‘ یہاں تک کہ اُنہوں نے پاکستان کو دفاعی سامان فروخت کرنے کے عمل کو وسعت دی اور بھارت کی تنقید کرنے میں ملیشاء کا ساتھ دیا۔
نئی دہلی نے اردِگان کے اس طرح کے بیانات پر شدید ردعمل ظاہر کیا۔ بھارت کی خارجہ امور کی وزارت نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اُن کی (اردِگان کی) باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ ’’انہیں نہ ہی تاریخ کی کوئی واقفیت ہے اور نہ ہی اُنہیں سفارتی آداب کا کوئی پاس و لحاظ ہے ۔۔۔ وہ ماضی کے واقعات کو توڑ مروڈ کر پیش کرتے ہوئے حال سے متعلق اپنی تنگ نظری کا مظاہرہ کررہے ہیں۔‘‘
طیب اردگان کے بھارت مخالف بیانات کو آج اُن کے خلاف ہی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ طیب اردگان کی جانب سے ایک تاریخی عمارت کو ایک مخصوص مذہب سے جوڑنے کے اس اقدام سے اُن کے میجارٹیرنزم (اکثریت پسندی) کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ اکثریت پسندی دُنیا کے کئی ممالک بشمول بھارت میں بھی پایا جاتا ہے اور شاید اسی وجہ سے نئی دہلی نے اس معاملے پر خاموشی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ایک صدی قبل جب خلافت عثمانیہ ختم ہوئی اور اس کے نتیجے میں بھارت میں تحریکِ خلافت شروع ہوگئی، تو اس کی وجہ سے ہندوستان کی تحریک آزادی کو بھی مدد ملی۔ بہرحال اس وقت جب آیا صوفیا سے متعلق ترکی کے تازہ فیصلے پر عالمی سطح پر ردعمل دیکھنے کو ملا، بھارت نے اس معاملے پر خاموشی اختیار کی ہے۔ بھارت سرکار کی اس خاموشی کو دو طرح سے دیکھا جاسکتا ہے۔ ایک یہ کہ شائد بھارت سرکار کسی دوسرے ملک کے ’’مذہبی‘‘ مسلئے پر بات کرکے اپنی مسلم آبادی کو مزید ناراض نہیں کرنا چاہتا ہے اور دوسرا یہ کہ وہ اس مسئلے پر بات کرکے دوسروں کو اپنے ملک کے اندر مندر کی تعمیر جیسے متنازعہ معاملے پر بات کرنے کا موقعہ دینا چاہتی ہے۔
آیا صوفیا عالمی سطح پر تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لئے ایک علامت رہی ہے۔ اردگان نے اتاترک کے اثاثے کو بدل کر رکھ دیا۔ تاہم انہوں نے اس ضمن میں اپنے ٹیلی ویژن خطاب میں کہا کہ نما ز اس عمارت کے احاطے میں پڑھی جائے گی جبکہ عمارت کے دروازے تمام مذاہب کے لوگوں کے لئے کُھلے رہیں گے۔ یہ عمارت، جو بنیادی طور پر بازنطینی کلیسا تھا اور بعد میں اسے خلافت عثمانیہ کے دور میں مسجد میں تبدیل کیا تھا، پوری دُنیا کے سیاحوں کے لئے کھلی رہے گی۔‘‘
طیب اردگان خلافت عثمانیہ کے دور کی اس عمارت مسجد کو دوبارہ مسجد بناتے ہوئے در اصل ترکی کو ایک مسلم اکثریتی ملک کی حیثیت سے پیش کرنا چاہتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ملک کے اندر اپنی عوامی حمائت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ترکی اس وقت معاشی بحران سے گزررہا ہے لیکن وہ اپنے دُشمن ملک سعودی عرب سے عالم اسلام کی قیادت کا رتبہ چھین کر خود حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اپنی جغرافیائی اہمیت اور شام میں گزشتہ ایک دہائی سے جاری جنگ کے چلتے، ترکی نے عالمی طاقتوں کی دشمنی میں اپنی اہمیت منوائی ہے۔ اردگان کی سربراہی میں ترکی نے دونوں روس اور امریکا کے آپسی ٹکراو میں اپنا اچھا خاصا رول نبھایا ہے۔ لیکن دوسری جانب چین میں اویغور مسلمانوں کے مسئلے کو نظر انداز کرتا رہا۔
ترکی کی بھاری اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے لیکن یہ ایک سیکولر ملک ہے اور یہ واحد مسلم ملک ہے، جس میں مذہب حکومت کا حصہ نہیں بلکہ اس کا آئین تمام لوگوں کو مذہبی آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔ اردگان نے ایک ایسی عمارت جو ماضی میں ایک بہت بڑا چرچ رہا ہے، کو مسجد میں تبدیل کرکے نہ صرف ترکی کی اسلامی شناخت کی باز یافت کرنے کی کوشش کی ہے بلکہ اپنے ملک کی عیسائی آبادی کو اُن کی اہمیت بتادی ہے۔
ترکی کے نوبل پرائز وِنر اور مصنف ارہان پامُک نے اس موضوع پر بی بی سی کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا، ’’اسے واپس مسجد میں تبدیل کرنے کا مطلب دُنیا کو یہ بتانا ہے کہ بدقسمتی سے اب ہم سیکولر نہیں رہے ہیں۔‘‘
(مضمون نگار کی آراء سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے)