ETV Bharat / opinion

کانگریس پارٹی گومگو کی حالت میں - اندرا گاندھی

کانگریس پارٹی سیاست کے سمندر میں ہچکولے کیوں کھا رہی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ کانگریس نریندر مودی اور اُن کے ذریعہ شروع کیے ہوئے سیاسی سیلاب کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے؟ عہدہ صدارت کو لے کر سینئر رہنماؤں کی الگ الگ رائے سے کانگریس پارٹی کیوں پریشان ہے؟ کیا وجہ ہے کہ راہل گاندھی بی جے پی کی جانب سے قائم کی گئی ’پپو‘ امیج سےچھٹکارہ نہیں پارہے ہیں؟ کانگریس کی تاریخ پر سینئر صحافی راجیو اچاریہ کی خصوصی تجزیہ پیش ہے۔

سونیا اور راہل گاندھی ۔فائل فوٹو
سونیا اور راہل گاندھی ۔فائل فوٹو
author img

By

Published : Aug 26, 2020, 12:34 AM IST

نئی دہلی: اندرا گاندھی سے لے کر اب تک کانگریس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہ پارٹی ایک طویل عرصے سے بالکل ویسی کی ویسی ہی ہے۔ پہلے یہ رائی کا پہاڑ بنادیتی ہے اور پھر اُس کے بعد شور و غل مچاتے ہوئے یہ تاثر دیتی ہے کہ گاندھی خاندان کے بغیر کانگریس پارٹی کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ نعرے بازی کی گونج میں پہلے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ گاندھی خاندان کے افراد دیوی دیوتا ہیں اور پھر یہ بتایا جاتا ہے کہ باقی پارٹی کے اراکین ان دیوی دیوتاؤں کے جاں نثار ہیں۔ بالکل یہی صورتحال آج بھی کانگریس میں برقرار ہے۔

راہل گاندھی اور سونیا گاندھی
راہل گاندھی اور سونیا گاندھی

اب یہ ایک حقیقت ہے کہ کانگریس پارٹی صرف گاندھی خاندان سے تعلق رکھنے والے کسی فرد کو ہی اپنا قائد مان سکتی ہے۔ یعنی اس خاندان سے باہر کا کوئی بھی رہنما پارٹی قیادت کےلئے قابل قبول نہیں ہوسکتا ہے۔ سونیا گاندھی نہیں تو صرف راہل گاندھی ہی پارٹی کی سربراہی کے اہل ہوسکتے ہیں۔پرینکا گاندھی کو مستقبل کےلئے فی الحال محفوظ رکھا گیا ہے۔

ایک پرانی کہاوت ہے کہ دُنیا شری رام کے بغیر ہل بھی نہیں سکتی ہے اور شری رام خود ہنومان کے بغیر کچھ نہیں کرسکتے ہیں۔ یہ کہاوت 135 سالہ قدیم کانگریس پارٹی جو آزادی کے بعد سب سے زیادہ وقت تک برسر اقتدار رہی ہے، پر بھی صادق آتی ہے۔ گاندھی خاندان کے بغیر کانگریس پارٹی کے وجود کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے، جبکہ خود گاندھی خاندان پارٹی میں موجود جی حضوری کرنے والوں کے بغیر کچھ نہیں کرسکتا ہے۔ جی حضوروں کی یہ ٹیم اُن نصف درجن منتظمین پر مشتمل ہے، جو خود ہی درد دینے اور خود ہی دوا دینے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو پیر کے آستانے میں عرس کا اہتمام کرتے ہیں۔ میڈیا کی زبان میں انہیں جتھا پکارا جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اصل میں ہائی کمانڈ ہیں۔ یہی لوگ مشورے دیتے ہیں فیصلے کرتے ہیں اور عوامی اجتماعات میں قائدین کے حق میں نعرے بلند کراتے ہیں۔

کانگریس پارٹی میں یہی کلچر اندرا گاندھی کے دور اقتدار میں بھی موجود تھا، تاہم فرق صرف اتنا ہے کہ اندرا گاندھی خود پورے ملک کے زمینی حقائق سے واقف رہا کرتی تھیں۔ وہ پارٹی میں شامل لوگوں کی اہمیت اور افادیت سے واقف تھیں اور اُنہیں پتہ رہتا تھا کہ ریاستوں میں کس لیڈر کو عوامی حمایت حاصل ہے۔ اُنہیں صرف اپنے پارٹی لیڈران کے بارے میں ان ساری باتوں کے علاوہ اُن لیڈران کی ذات کے بارے میں بھی تفصیلات معلوم ہوتی تھیں۔ وہ سیاست کے اسرار و رموز سے بھی واقف تھیں اور وہ عوام کی نبض شناش بھی تھیں۔ اسی لئے وہ پارٹی کے اندر درپیش چیلنجز کا خود مقابلہ کرتی تھیں اور سیاست کے میدان میں مسائل سے نمٹنا بھی جانتی تھیں۔

سونیا گاندھی سے اندرا گاندھی جیسی فراست اور سیاسی بالیدگی کی توقع رکھنا زیادتی ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ اُنہیں مدد کے لئے منتظمین کے جتھے کی ضرورت پڑتی ہے۔ وہ اپنے فیصلوں کےلئے ان ہی لوگوں پر منحصر ہیں۔ ان کی وجہ سے سونیا گاندھی اپنے دبدبے بنائے رکھنے میں کامیاب ہوگئی ہیں، لیکن ان کی وجہ سے ملک کی اس قدیم سیاسی جماعت کو بہت نقصان بھی پہنچا ہے۔

سونیا گاندھی۔ فائل فوٹو
سونیا گاندھی۔ فائل فوٹو

کانگرس میں موجود ’جی حضوری‘ کرنے والے یہ لوگ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران عیش و عشرت میں رہے ہیں۔ یو پی اے قیادت والی مرکزی حکومت کے دور میں کانگریس ہائی کمان کی جھوٹی چمک دمک کو بنائے رکھا گیا۔ پارٹی میں جوابدہی کے نظام کو صرف وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ تک محدود رکھا گیا تھا جبکہ اس عرصے کے دوران ’ہائی کمان کی یہ ایشٹیبلشمنٹ‘ پس پردہ متحرک رہی ۔

کانگریس کی تاریخ کا یہ مختصر احاطہ اس لئے کرنا پڑا تاکہ آپ یہ بات سمجھ پائیں کہ یہ بحری جہاز جس کا نام کانگریس ہے، اب غر قِ آب کیوں ہورہا ہے اور سیاست کے سمندر میں یہ جہاز ہچکولے کیوں کھا رہا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ کانگریس نریندر مودی اور اُن کے ذریعہ شروع کیے ہوئے سیاسی سیلاب کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے؟ کیا وجہ ہے کہ راہل گاندھی اُن کے بارے میں بی جے پی کی جانب سے قائم کی گئی ’پپو‘ امیج سے وہ چھٹکارہ نہیں پارہے ہیں؟

راہل گاندھی اور نریندر مودی۔ فائل فوٹو
راہل گاندھی اور نریندر مودی۔ فائل فوٹو

کیا وجہ ہے کہ کانگریس کے منتظمین سنجیدگی کا دکھاوا کرنے کے باوجود عملی طور پر راہل گاندھی کو کامیاب بنانے کےلئے کوئی موثر اور اجتماعی کوشش نہیں کر رہے ہیں؟

ایسا اس لئے نہیں ہو پارہا ہے کیونکہ راہل گاندھی اپنی ماں سونیا گاندھی کی طرح نہیں ہیں۔ راہل گاندھی کے پاس بھلے ہی ایک طاقت ور عوامی لیڈر کی شبیہ نہ ہو لیکن جب وہ کانگریس پارٹی کے صدر تھے تو وہ پارٹی کے اندر موجود ’جی حضوری‘ کرنے والے جتھے اور ملک بھر کے مختلف حصوں میں پارٹی کے داخلی مسائل کو بخوبی سمجھتے تھے۔

سال 2014ء کے لوک سبھا انتخابات میں بدترین کاگردگی کا مظاہرہ کرنے کے بعد راہل نے کئی دنوں تک جائزہ میٹنگوں کا انعقاد کیا۔ انہوں نے مختلف ریاستوں کے پارٹی کارکنان کے خیالات جاننے کی کوشش کی اور ان کی شکایات بھی سُنیں۔ ان ساری کارروائی نے پارٹی کی اصل صورتحال اُن کے سامنے لائی۔ اُنہیں یہ بات سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ تب تک پارٹی میں بہتری نہیں لائی جاسکتی ہے، جب تک نہ ان منتطمین سے چھٹکارہ نہیں پایا جاتا۔ پس یہیں سے کانگریس میں اندرونی دنگل شروع ہونے لگی۔

کانگریس کو مضبوط کرنے کی کوشش میں راہل گاندھی نے سونیا گاندھی کے منظور نظر جتھے کو حاشیئے پر رکھتے ہوئے ایک نئی ٹیم تشکیل دینے کی شروعات کی۔ راہل گاندھی نے سونیا گاندھی کے طاقتور پولٹیکل سیکرٹری احمد پٹیل اور اسکے پیادوں پر وار کیا۔ یہ راہل گاندھی کی جانب سے دلیری کا تجربہ کرنے کا ایک سوچا سمجھا اقدام تھا، لیکن اس عمل کے دوران انہوں نے کئی غلطیاں بھی کیں۔ پارٹی کے اندر اُن کے گردونواح میں ایسے نوجوان لیڈروں کی بھیڑ جمع ہوگئی، جو آکسفورڈ اور ہارورڈ یونیورسٹیوں سے پڑھ کر آئے ہیں اور جو مغربی دُنیا کی طرز سیاست سے واقف ہیں۔ یہ نوجوان لیڈر بھارت کی اس 135سالہ قدیم سیاسی جماعت کے روایتی اصولوں سے واقف نہیں تھے۔ پارٹی کو چلانے کےلئے سرویز اور انٹرویوز کرنے کے پیمانے اپنائے گئے۔ پارٹی کی نوجوان اور طلبا ونگ میں نامزدگی کی روایات کی پاسداری ترک کردی گئی۔ عہدیداروں کی تعیناتی کےلئے انتخابی عمل اختیار کیا گیا ۔ یہ نیا طریقہ کار کانگریس میں موجود اُن لوگوں کو نہیں بھایا، جو روایتی طریقہ کار میں یقین رکھتے ہیں۔

راہل گاندھی
راہل گاندھی

راہل نے اسی پر بس نہیں کیا۔ انہوں نے اپنی پسند کے نوجوان لیڈروں کو ریاستی یونٹوں کا سربراہ مقرر کرنا شروع کردیا۔ پارٹی کے سینئر اراکین نے اُن کے اس طریقہ کار کو اپنی توہین اور اپنے لئے ایک چیلنج سمجھنا شروع کردیا، اس بات کو ایک مثال سے سمجھا جاسکتا ہے:

بھوپیندر سنگھ ہڈا جو ہریانہ میں دس سال تک وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں، نے کبھی بھی ڈاکٹر اشوک تنوار کو پارٹی کے ریاستی یونٹ کا صدر تسلیم نہیں کیا ہے۔ یہ بات اُس وقت تنازع کا موجب بنی جب ڈاکٹر تنوار پر حملہ ہوا۔ بالآخر ڈاکٹر تنوار نے کانگریس پارٹی چھوڑ دی۔

سال 2014ء سے لیکر سال 2019ء تک راہل گاندھی نے پارٹی کو از سر نو منظم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ یہ وہ وقت تھا، جب اُنہیں ایک موثر اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے اپنی صلاحتیتوں کو بھی منوانا تھا۔ راہل گاندھی ایک اچھے مقرر نہیں ہیں۔ کئی بار اُنہیں پارلیمانی پلیٹ فارمز پر خفت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ سیاسی زیرکی کا مظاہرہ کرنے کے عادی نہیں ہیں اور نہ ہی اُنہیں سیاسی میدان کا وہ حقیقی تجربہ حاصل ہے، جو زمینی سطح پر جدوجہد کرنے کے نتیجے میں ہی حاصل ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب انہوں نے لوک سبھا میں وزیر اعظم نریندر مودی کو گلے لگایا تو ان کی اس حرکت کی سراہنا کرنے کے بجائے لوگوں نے اُن کی تضحیک کی۔ خود مودی سیاسی خصوصیات سے مالا مال ہیں۔ جبکہ راہل نے خود کا ایک ’پپو‘ ثابت کیا اور اس میں کانگریس پارٹی کے سرکردہ لیڈروں کو اپنے لئے مواقع نظر آنے لگے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ راہل گاندھی کو انہیں کانگریس میں اپنا گرو کے بطور تسلیم کرنا چاہیے اور اس کے بعد ہی وہ راہل گاندھی کو اپنے مشوروں سے نوازیں گے۔

بے رحم سیاست کے سمندر میں غوطہ زن ہوجانے کے بجائے جوان اور ثابت قدم راہل گاندھی اپنا تناؤ دور کرنے کےلئے وپاستا کیمپ پر جاتے ہیں۔ اُن کی ماں سونیا گاندھی اپنے بیٹے کی ان خامیوں کے بارے میں یہ سب کچھ اچھی طرح جانتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اسمبلی انتخابات کےلئے اُمیدواروں کی نامزدگی کےلئے اپنے وفادار لیڈروں پر مشتمل سکریننگ کمیٹیاں اور سلیکشن کمیٹیاں تشکیل دیتی رہی ہیں تاکہ اس عمل کے نتیجے میں ان کے اِن وفاداروں کی ’دکان‘ بھی چلتی رہے۔

سال 2019ء کے لوک سبھا انتخابات میں کانگریس کو ذلت آمیز ہار کا سامنا کرنا پڑا۔ اس پر نہ صرف میڈیا کی جانب سے بلکہ پارٹی کے اندر بھی راہل گاندھی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ پارلیمانی انتخابات میں پارٹی کی شکست کی اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اُنہوں نے پارٹی صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔

حالانکہ کانگریس میں اس طرح کے اقدامات کی روایت نہیں ہے لیکن راہل کے اس اقدام پر جی حضوری کرنے والا ٹولہ خوش ہوا۔ احمد پٹیل، پی چدمبرم، اے کے انٹونی، موتی لعل وہرا اور دیگر سرکردہ لیڈران سونیا گاندھی کو کانگریس کا عبوری صدر بنانے میں کامیاب ہوگئے۔قابل ذکر ہے کہ اگر یہ لیڈران پرینکا گاندھی کو پارٹی کا جنرل سیکرٹری، یعنی ہائی کمانڈ کا حصہ بنانے میں کامیاب نہ ہوئے ہوتے تو راہل گاندھی اپنی پسند کے کسی اور لیڈر کو پارٹی صدر بنانے پر قائل ہوجاتے۔ یہ بات جی حضوری کرنے والے جتھے کے لئے ناقابلِ قبول تھی۔ پرینکا گاندھی نے اپنی ماں کو پارٹی کے عبوری صدر کا عہدہ تسلیم کرنے پر مائل کیا تاکہ پارٹی کی باگ ڈور گاندھی خاندان کے پاس ہی رہے۔

اب ہم کانگریس پارٹی میں وقوع پذیر ہوئے تازہ واقعہ کی بات کریں گے، جس کی وجہ سے کئی لوگ ششدر رہ گئے ہیں۔ 23 پارٹی لیڈران کی جانب سے لکھے گئے ایک خط نے پارٹی کے اندر ادھم مچادی۔ اگر میں یہ کہوں کہ یہ سب کچھ پارٹی کے ’سپریم منیجر (بڑے منتظم) ‘ احمد پٹیل کا ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا، تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ کئی لوگوں کو یہ بات ہضم نہیں ہوگی۔ لیکن جیسا کہ میں ابتدا میں بتایا کہ پارٹی کے اندر ’جی حضوری‘ کرنے والا گروپ خود ہی درد دینے اور خود ہی دوا دینے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں۔ پٹیل کانگریس کے چیف جنرل منیجر ہیں، جنہیں راہل گاندھی کافی عرصے سے نظر انداز کرتے رہے ہیں۔ تاہم پرینکا اور سونیا گاندھی اب بھی اُن کے صلاح و مشورے پر عمل کرتی ہیں۔ اس بات کا خدشہ تھا کہ شاید راہل گاندھی پارٹی کی صدارت گاندھی خاندان سے باہر کے کسی لیڈر کو سونپ دیں گے۔ راہل کے اس منصوبے کو ناکام بنانے کےلئے ہی یہ سارا منصوبہ بنایا گیا۔

اندرا گاندھی کے وقت سے غلام نبی آزاد کانگریس کے ایک اہم لیڈر ہیں۔ وہ اب تک ہر طرح کی صورتحال سے بچ کر نکلے ہیں۔ وہ واحد لیڈر ہیں جو مسلسل کانگریس ورکنگ کمیٹی کے رکن رہے ہیں۔ پارٹی کے جنرل سیکریٹری کی حیثیت سے وہ تقریباً ہر ریاست کے جنرل سیکرٹری بھی رہے ہیں۔ اُن کی راجیہ سبھا رُکنیت اب اختتام پذیر ہورہی ہے۔ غلام نبی آزاد، احمد پٹیل نہیں ہیں، جنہیں مسلسل پانچویں بار بھی راجیہ سبھا کی ٹکٹ ملی ہے۔ وہ دگ وجے سنگھ بھی نہیں ہیں، جنہیں کئی اراکین اسمبلی کی حمایت حاصل ہے اور پارٹی اُنہیں راجیہ سبھا نہ بھیجنے کا خطرہ نہیں مول لے سکتی ہے۔ یہاں تک غلام نبی آزاد ڈاکٹر منموہن کی طرح منظورِ نظر بھی نہیں ہیں۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ راہل گاندھی نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے کے سی وینوگوپال اور راجیو ستاو جو اُن کے قریبی ہیں، وہ راجیہ سبھا کی رُکنیت دلا دی ہے۔ غلام نبی آزاد، کپل سبل اور آنند شرما جیسے لیڈروں کو احساس ہوا کہ راہل گاندھی کا یہ ایک غلط قدم ہے۔ ملک ارجن کھڑگے راہل گاندھی کو پسند کرتے ہیں۔ اُنہیں پہلے لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف بنایا گیا تھا۔ اب اُنہیں راجیہ سبھا میں بھیج دیا گیا ہے۔ اب جبکہ غلام نبی آزاد ریٹائرڈ ہورہے ہیں، اس بات کا امکان ہے کہ راہل گاندھی ملک ارجن کھڑگے کو راجیہ سبھا میں قائد حزب اختلاف بنائیں گے۔ مخالفین کو یہی درد ستا رہا ہے۔ لوک سبھا میں راہل گاندھی نے مغربی بنگال کے ادھیر رانجن چودھری کو قائد حزب اختلاف بنایا ہے۔ منیش تِواری سمجھتے ہیں کہ اُنہیں لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف بنایا جانا چاہیے تھا، لیکن راہل گاندھی اُن سے ناراض ہیں کیونکہ اُنہوں نے سال 2014ء میں الیکشن لڑنے سے یہ کہہ کر انکار کیا تھا کہ وہ علیل ہیں۔ جبکہ حقیقت میں انہیں ڈر تھا کہ وہ الیکشن ہار جائیں گے۔ اسی طرح وویک تھانکا کو یہ غلط فہمی ہے کہ وہ ایک بڑے لیڈر ہیں اور اُنہیں مدھیہ پردیس کے پارٹی یونٹ کا سربراہ بنایا جانا چاہیے۔ یہ سبھی لوگ نجی گفتگو میں اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں۔ منتظمین اس صورتحال پر من ہی من میں مسکرا دیئے کیونکہ اُنہیں اس میں بھی اپنے لئے موقع نظر آیا۔ انہوں نے یہ موقع راہل گاندھی کے خلاف ایک ایسے موقع پر استعمال کیا، جب سونیا گاندھی کی بطور عبوری پارٹی صدر، میعاد اختتام پذیر ہونے جارہی تھی۔ اس میں اُن کی حکمت عملی یہ تھی کہ اگر راہل گاندھی کسی اور کو پارٹی کا صدر بنانا چاہتے ہیں تو پھر پارٹی چلانے کے اُن کے طریقہ کار پر سوال کھڑا کیا جاسکتا ہے۔ لگتا ہے کہ اُن کا یہ تیر نشانے پر جالگا۔ راہل گاندھی کی منشاء کے باوجود سونیا گاندھی کو تب تک کے لئے بدستور پارٹی کا عبوری صدر مقرر کیا گیا، جب تک پارٹی کا مکمل اجلاس نہیں بلایا جاتا، جس میں پہلے ورکنگ کمیٹی کے اراکین کا انتخاب ہوگا اور اُس کے بعد پارٹی صدر کا۔ اس ضمن میں منصوبہ بند طریقے سے مطابقت پیدا کی جائے گی۔ یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کانگریس کے اندر گاندھی خاندان کے خلاف بغاوت ہوسکتی ہے۔ اس وجہ سے سونیا گاندھی دباو میں آجائیں گی اور نتیجے کے طور پر پارٹی کے سرکردہ لیڈران اور راہل گاندھی کے حامیوں کا یکساں طور پر خیال رکھا جائے گا۔ اس صورتحال میں اگر راہل گاندھی کو پارٹی صدر بنایا بھی جائے گا، لیکن اصل اختیار سونیا گاندھی اور پرینکا گاندھی کے پاس ہی ہوگا۔

چونکہ کانگریس کے پاس تین ہی آپشن ہیں، سونیا، پرینکا اور راہل۔ یہ بھی سچ ہے کہ گاندھی خاندان کانگریس پر اپنے شاہانہ کنٹرول کو کھونا نہیں چاہیےگا۔ راہل گاندھی بھی اپنی سیاسی اہمیت جتانے کےلئے پارٹی کےلئے دی گئیں اپنی قربانیوں کے بارے میں باتیں کرتے ہیں۔

سال 2024ء تک کانگریس اپنے گھر کو ٹھیک کرنے میں محو رہے گی اور اس دوران وزیر اعظم نریندرا مودی رام مندر میں پوچا کرنے کے بعد اگلی معیادِ حکومت کےلئے لوگوں سے ووٹ مانگیں گے۔ تاہم یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس دُنیا میں کانگریس کے لوگوں کی خوش اُمیدی کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ لوگوں کے حقوق کےلئے سڑکوں پر لڑنے کے بجائے وہ پارٹی میں اپنی بالادستی کے لئے آپس میں لڑر ہے ہیں۔ اُن کو یہ کہنا اچھا لگتا ہے کہ جب مودی اور بی جے پی غلطی کرے گی تو اُس وقت کانگریس ہی واحد متبادل ہوگی اور اسے واپس اقتدار حاصل ہوجائے گا۔

نئی دہلی: اندرا گاندھی سے لے کر اب تک کانگریس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہ پارٹی ایک طویل عرصے سے بالکل ویسی کی ویسی ہی ہے۔ پہلے یہ رائی کا پہاڑ بنادیتی ہے اور پھر اُس کے بعد شور و غل مچاتے ہوئے یہ تاثر دیتی ہے کہ گاندھی خاندان کے بغیر کانگریس پارٹی کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ نعرے بازی کی گونج میں پہلے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ گاندھی خاندان کے افراد دیوی دیوتا ہیں اور پھر یہ بتایا جاتا ہے کہ باقی پارٹی کے اراکین ان دیوی دیوتاؤں کے جاں نثار ہیں۔ بالکل یہی صورتحال آج بھی کانگریس میں برقرار ہے۔

راہل گاندھی اور سونیا گاندھی
راہل گاندھی اور سونیا گاندھی

اب یہ ایک حقیقت ہے کہ کانگریس پارٹی صرف گاندھی خاندان سے تعلق رکھنے والے کسی فرد کو ہی اپنا قائد مان سکتی ہے۔ یعنی اس خاندان سے باہر کا کوئی بھی رہنما پارٹی قیادت کےلئے قابل قبول نہیں ہوسکتا ہے۔ سونیا گاندھی نہیں تو صرف راہل گاندھی ہی پارٹی کی سربراہی کے اہل ہوسکتے ہیں۔پرینکا گاندھی کو مستقبل کےلئے فی الحال محفوظ رکھا گیا ہے۔

ایک پرانی کہاوت ہے کہ دُنیا شری رام کے بغیر ہل بھی نہیں سکتی ہے اور شری رام خود ہنومان کے بغیر کچھ نہیں کرسکتے ہیں۔ یہ کہاوت 135 سالہ قدیم کانگریس پارٹی جو آزادی کے بعد سب سے زیادہ وقت تک برسر اقتدار رہی ہے، پر بھی صادق آتی ہے۔ گاندھی خاندان کے بغیر کانگریس پارٹی کے وجود کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے، جبکہ خود گاندھی خاندان پارٹی میں موجود جی حضوری کرنے والوں کے بغیر کچھ نہیں کرسکتا ہے۔ جی حضوروں کی یہ ٹیم اُن نصف درجن منتظمین پر مشتمل ہے، جو خود ہی درد دینے اور خود ہی دوا دینے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو پیر کے آستانے میں عرس کا اہتمام کرتے ہیں۔ میڈیا کی زبان میں انہیں جتھا پکارا جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اصل میں ہائی کمانڈ ہیں۔ یہی لوگ مشورے دیتے ہیں فیصلے کرتے ہیں اور عوامی اجتماعات میں قائدین کے حق میں نعرے بلند کراتے ہیں۔

کانگریس پارٹی میں یہی کلچر اندرا گاندھی کے دور اقتدار میں بھی موجود تھا، تاہم فرق صرف اتنا ہے کہ اندرا گاندھی خود پورے ملک کے زمینی حقائق سے واقف رہا کرتی تھیں۔ وہ پارٹی میں شامل لوگوں کی اہمیت اور افادیت سے واقف تھیں اور اُنہیں پتہ رہتا تھا کہ ریاستوں میں کس لیڈر کو عوامی حمایت حاصل ہے۔ اُنہیں صرف اپنے پارٹی لیڈران کے بارے میں ان ساری باتوں کے علاوہ اُن لیڈران کی ذات کے بارے میں بھی تفصیلات معلوم ہوتی تھیں۔ وہ سیاست کے اسرار و رموز سے بھی واقف تھیں اور وہ عوام کی نبض شناش بھی تھیں۔ اسی لئے وہ پارٹی کے اندر درپیش چیلنجز کا خود مقابلہ کرتی تھیں اور سیاست کے میدان میں مسائل سے نمٹنا بھی جانتی تھیں۔

سونیا گاندھی سے اندرا گاندھی جیسی فراست اور سیاسی بالیدگی کی توقع رکھنا زیادتی ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ اُنہیں مدد کے لئے منتظمین کے جتھے کی ضرورت پڑتی ہے۔ وہ اپنے فیصلوں کےلئے ان ہی لوگوں پر منحصر ہیں۔ ان کی وجہ سے سونیا گاندھی اپنے دبدبے بنائے رکھنے میں کامیاب ہوگئی ہیں، لیکن ان کی وجہ سے ملک کی اس قدیم سیاسی جماعت کو بہت نقصان بھی پہنچا ہے۔

سونیا گاندھی۔ فائل فوٹو
سونیا گاندھی۔ فائل فوٹو

کانگرس میں موجود ’جی حضوری‘ کرنے والے یہ لوگ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران عیش و عشرت میں رہے ہیں۔ یو پی اے قیادت والی مرکزی حکومت کے دور میں کانگریس ہائی کمان کی جھوٹی چمک دمک کو بنائے رکھا گیا۔ پارٹی میں جوابدہی کے نظام کو صرف وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ تک محدود رکھا گیا تھا جبکہ اس عرصے کے دوران ’ہائی کمان کی یہ ایشٹیبلشمنٹ‘ پس پردہ متحرک رہی ۔

کانگریس کی تاریخ کا یہ مختصر احاطہ اس لئے کرنا پڑا تاکہ آپ یہ بات سمجھ پائیں کہ یہ بحری جہاز جس کا نام کانگریس ہے، اب غر قِ آب کیوں ہورہا ہے اور سیاست کے سمندر میں یہ جہاز ہچکولے کیوں کھا رہا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ کانگریس نریندر مودی اور اُن کے ذریعہ شروع کیے ہوئے سیاسی سیلاب کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے؟ کیا وجہ ہے کہ راہل گاندھی اُن کے بارے میں بی جے پی کی جانب سے قائم کی گئی ’پپو‘ امیج سے وہ چھٹکارہ نہیں پارہے ہیں؟

راہل گاندھی اور نریندر مودی۔ فائل فوٹو
راہل گاندھی اور نریندر مودی۔ فائل فوٹو

کیا وجہ ہے کہ کانگریس کے منتظمین سنجیدگی کا دکھاوا کرنے کے باوجود عملی طور پر راہل گاندھی کو کامیاب بنانے کےلئے کوئی موثر اور اجتماعی کوشش نہیں کر رہے ہیں؟

ایسا اس لئے نہیں ہو پارہا ہے کیونکہ راہل گاندھی اپنی ماں سونیا گاندھی کی طرح نہیں ہیں۔ راہل گاندھی کے پاس بھلے ہی ایک طاقت ور عوامی لیڈر کی شبیہ نہ ہو لیکن جب وہ کانگریس پارٹی کے صدر تھے تو وہ پارٹی کے اندر موجود ’جی حضوری‘ کرنے والے جتھے اور ملک بھر کے مختلف حصوں میں پارٹی کے داخلی مسائل کو بخوبی سمجھتے تھے۔

سال 2014ء کے لوک سبھا انتخابات میں بدترین کاگردگی کا مظاہرہ کرنے کے بعد راہل نے کئی دنوں تک جائزہ میٹنگوں کا انعقاد کیا۔ انہوں نے مختلف ریاستوں کے پارٹی کارکنان کے خیالات جاننے کی کوشش کی اور ان کی شکایات بھی سُنیں۔ ان ساری کارروائی نے پارٹی کی اصل صورتحال اُن کے سامنے لائی۔ اُنہیں یہ بات سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ تب تک پارٹی میں بہتری نہیں لائی جاسکتی ہے، جب تک نہ ان منتطمین سے چھٹکارہ نہیں پایا جاتا۔ پس یہیں سے کانگریس میں اندرونی دنگل شروع ہونے لگی۔

کانگریس کو مضبوط کرنے کی کوشش میں راہل گاندھی نے سونیا گاندھی کے منظور نظر جتھے کو حاشیئے پر رکھتے ہوئے ایک نئی ٹیم تشکیل دینے کی شروعات کی۔ راہل گاندھی نے سونیا گاندھی کے طاقتور پولٹیکل سیکرٹری احمد پٹیل اور اسکے پیادوں پر وار کیا۔ یہ راہل گاندھی کی جانب سے دلیری کا تجربہ کرنے کا ایک سوچا سمجھا اقدام تھا، لیکن اس عمل کے دوران انہوں نے کئی غلطیاں بھی کیں۔ پارٹی کے اندر اُن کے گردونواح میں ایسے نوجوان لیڈروں کی بھیڑ جمع ہوگئی، جو آکسفورڈ اور ہارورڈ یونیورسٹیوں سے پڑھ کر آئے ہیں اور جو مغربی دُنیا کی طرز سیاست سے واقف ہیں۔ یہ نوجوان لیڈر بھارت کی اس 135سالہ قدیم سیاسی جماعت کے روایتی اصولوں سے واقف نہیں تھے۔ پارٹی کو چلانے کےلئے سرویز اور انٹرویوز کرنے کے پیمانے اپنائے گئے۔ پارٹی کی نوجوان اور طلبا ونگ میں نامزدگی کی روایات کی پاسداری ترک کردی گئی۔ عہدیداروں کی تعیناتی کےلئے انتخابی عمل اختیار کیا گیا ۔ یہ نیا طریقہ کار کانگریس میں موجود اُن لوگوں کو نہیں بھایا، جو روایتی طریقہ کار میں یقین رکھتے ہیں۔

راہل گاندھی
راہل گاندھی

راہل نے اسی پر بس نہیں کیا۔ انہوں نے اپنی پسند کے نوجوان لیڈروں کو ریاستی یونٹوں کا سربراہ مقرر کرنا شروع کردیا۔ پارٹی کے سینئر اراکین نے اُن کے اس طریقہ کار کو اپنی توہین اور اپنے لئے ایک چیلنج سمجھنا شروع کردیا، اس بات کو ایک مثال سے سمجھا جاسکتا ہے:

بھوپیندر سنگھ ہڈا جو ہریانہ میں دس سال تک وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں، نے کبھی بھی ڈاکٹر اشوک تنوار کو پارٹی کے ریاستی یونٹ کا صدر تسلیم نہیں کیا ہے۔ یہ بات اُس وقت تنازع کا موجب بنی جب ڈاکٹر تنوار پر حملہ ہوا۔ بالآخر ڈاکٹر تنوار نے کانگریس پارٹی چھوڑ دی۔

سال 2014ء سے لیکر سال 2019ء تک راہل گاندھی نے پارٹی کو از سر نو منظم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ یہ وہ وقت تھا، جب اُنہیں ایک موثر اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے اپنی صلاحتیتوں کو بھی منوانا تھا۔ راہل گاندھی ایک اچھے مقرر نہیں ہیں۔ کئی بار اُنہیں پارلیمانی پلیٹ فارمز پر خفت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ سیاسی زیرکی کا مظاہرہ کرنے کے عادی نہیں ہیں اور نہ ہی اُنہیں سیاسی میدان کا وہ حقیقی تجربہ حاصل ہے، جو زمینی سطح پر جدوجہد کرنے کے نتیجے میں ہی حاصل ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب انہوں نے لوک سبھا میں وزیر اعظم نریندر مودی کو گلے لگایا تو ان کی اس حرکت کی سراہنا کرنے کے بجائے لوگوں نے اُن کی تضحیک کی۔ خود مودی سیاسی خصوصیات سے مالا مال ہیں۔ جبکہ راہل نے خود کا ایک ’پپو‘ ثابت کیا اور اس میں کانگریس پارٹی کے سرکردہ لیڈروں کو اپنے لئے مواقع نظر آنے لگے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ راہل گاندھی کو انہیں کانگریس میں اپنا گرو کے بطور تسلیم کرنا چاہیے اور اس کے بعد ہی وہ راہل گاندھی کو اپنے مشوروں سے نوازیں گے۔

بے رحم سیاست کے سمندر میں غوطہ زن ہوجانے کے بجائے جوان اور ثابت قدم راہل گاندھی اپنا تناؤ دور کرنے کےلئے وپاستا کیمپ پر جاتے ہیں۔ اُن کی ماں سونیا گاندھی اپنے بیٹے کی ان خامیوں کے بارے میں یہ سب کچھ اچھی طرح جانتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اسمبلی انتخابات کےلئے اُمیدواروں کی نامزدگی کےلئے اپنے وفادار لیڈروں پر مشتمل سکریننگ کمیٹیاں اور سلیکشن کمیٹیاں تشکیل دیتی رہی ہیں تاکہ اس عمل کے نتیجے میں ان کے اِن وفاداروں کی ’دکان‘ بھی چلتی رہے۔

سال 2019ء کے لوک سبھا انتخابات میں کانگریس کو ذلت آمیز ہار کا سامنا کرنا پڑا۔ اس پر نہ صرف میڈیا کی جانب سے بلکہ پارٹی کے اندر بھی راہل گاندھی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ پارلیمانی انتخابات میں پارٹی کی شکست کی اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اُنہوں نے پارٹی صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔

حالانکہ کانگریس میں اس طرح کے اقدامات کی روایت نہیں ہے لیکن راہل کے اس اقدام پر جی حضوری کرنے والا ٹولہ خوش ہوا۔ احمد پٹیل، پی چدمبرم، اے کے انٹونی، موتی لعل وہرا اور دیگر سرکردہ لیڈران سونیا گاندھی کو کانگریس کا عبوری صدر بنانے میں کامیاب ہوگئے۔قابل ذکر ہے کہ اگر یہ لیڈران پرینکا گاندھی کو پارٹی کا جنرل سیکرٹری، یعنی ہائی کمانڈ کا حصہ بنانے میں کامیاب نہ ہوئے ہوتے تو راہل گاندھی اپنی پسند کے کسی اور لیڈر کو پارٹی صدر بنانے پر قائل ہوجاتے۔ یہ بات جی حضوری کرنے والے جتھے کے لئے ناقابلِ قبول تھی۔ پرینکا گاندھی نے اپنی ماں کو پارٹی کے عبوری صدر کا عہدہ تسلیم کرنے پر مائل کیا تاکہ پارٹی کی باگ ڈور گاندھی خاندان کے پاس ہی رہے۔

اب ہم کانگریس پارٹی میں وقوع پذیر ہوئے تازہ واقعہ کی بات کریں گے، جس کی وجہ سے کئی لوگ ششدر رہ گئے ہیں۔ 23 پارٹی لیڈران کی جانب سے لکھے گئے ایک خط نے پارٹی کے اندر ادھم مچادی۔ اگر میں یہ کہوں کہ یہ سب کچھ پارٹی کے ’سپریم منیجر (بڑے منتظم) ‘ احمد پٹیل کا ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا، تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ کئی لوگوں کو یہ بات ہضم نہیں ہوگی۔ لیکن جیسا کہ میں ابتدا میں بتایا کہ پارٹی کے اندر ’جی حضوری‘ کرنے والا گروپ خود ہی درد دینے اور خود ہی دوا دینے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں۔ پٹیل کانگریس کے چیف جنرل منیجر ہیں، جنہیں راہل گاندھی کافی عرصے سے نظر انداز کرتے رہے ہیں۔ تاہم پرینکا اور سونیا گاندھی اب بھی اُن کے صلاح و مشورے پر عمل کرتی ہیں۔ اس بات کا خدشہ تھا کہ شاید راہل گاندھی پارٹی کی صدارت گاندھی خاندان سے باہر کے کسی لیڈر کو سونپ دیں گے۔ راہل کے اس منصوبے کو ناکام بنانے کےلئے ہی یہ سارا منصوبہ بنایا گیا۔

اندرا گاندھی کے وقت سے غلام نبی آزاد کانگریس کے ایک اہم لیڈر ہیں۔ وہ اب تک ہر طرح کی صورتحال سے بچ کر نکلے ہیں۔ وہ واحد لیڈر ہیں جو مسلسل کانگریس ورکنگ کمیٹی کے رکن رہے ہیں۔ پارٹی کے جنرل سیکریٹری کی حیثیت سے وہ تقریباً ہر ریاست کے جنرل سیکرٹری بھی رہے ہیں۔ اُن کی راجیہ سبھا رُکنیت اب اختتام پذیر ہورہی ہے۔ غلام نبی آزاد، احمد پٹیل نہیں ہیں، جنہیں مسلسل پانچویں بار بھی راجیہ سبھا کی ٹکٹ ملی ہے۔ وہ دگ وجے سنگھ بھی نہیں ہیں، جنہیں کئی اراکین اسمبلی کی حمایت حاصل ہے اور پارٹی اُنہیں راجیہ سبھا نہ بھیجنے کا خطرہ نہیں مول لے سکتی ہے۔ یہاں تک غلام نبی آزاد ڈاکٹر منموہن کی طرح منظورِ نظر بھی نہیں ہیں۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ راہل گاندھی نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے کے سی وینوگوپال اور راجیو ستاو جو اُن کے قریبی ہیں، وہ راجیہ سبھا کی رُکنیت دلا دی ہے۔ غلام نبی آزاد، کپل سبل اور آنند شرما جیسے لیڈروں کو احساس ہوا کہ راہل گاندھی کا یہ ایک غلط قدم ہے۔ ملک ارجن کھڑگے راہل گاندھی کو پسند کرتے ہیں۔ اُنہیں پہلے لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف بنایا گیا تھا۔ اب اُنہیں راجیہ سبھا میں بھیج دیا گیا ہے۔ اب جبکہ غلام نبی آزاد ریٹائرڈ ہورہے ہیں، اس بات کا امکان ہے کہ راہل گاندھی ملک ارجن کھڑگے کو راجیہ سبھا میں قائد حزب اختلاف بنائیں گے۔ مخالفین کو یہی درد ستا رہا ہے۔ لوک سبھا میں راہل گاندھی نے مغربی بنگال کے ادھیر رانجن چودھری کو قائد حزب اختلاف بنایا ہے۔ منیش تِواری سمجھتے ہیں کہ اُنہیں لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف بنایا جانا چاہیے تھا، لیکن راہل گاندھی اُن سے ناراض ہیں کیونکہ اُنہوں نے سال 2014ء میں الیکشن لڑنے سے یہ کہہ کر انکار کیا تھا کہ وہ علیل ہیں۔ جبکہ حقیقت میں انہیں ڈر تھا کہ وہ الیکشن ہار جائیں گے۔ اسی طرح وویک تھانکا کو یہ غلط فہمی ہے کہ وہ ایک بڑے لیڈر ہیں اور اُنہیں مدھیہ پردیس کے پارٹی یونٹ کا سربراہ بنایا جانا چاہیے۔ یہ سبھی لوگ نجی گفتگو میں اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں۔ منتظمین اس صورتحال پر من ہی من میں مسکرا دیئے کیونکہ اُنہیں اس میں بھی اپنے لئے موقع نظر آیا۔ انہوں نے یہ موقع راہل گاندھی کے خلاف ایک ایسے موقع پر استعمال کیا، جب سونیا گاندھی کی بطور عبوری پارٹی صدر، میعاد اختتام پذیر ہونے جارہی تھی۔ اس میں اُن کی حکمت عملی یہ تھی کہ اگر راہل گاندھی کسی اور کو پارٹی کا صدر بنانا چاہتے ہیں تو پھر پارٹی چلانے کے اُن کے طریقہ کار پر سوال کھڑا کیا جاسکتا ہے۔ لگتا ہے کہ اُن کا یہ تیر نشانے پر جالگا۔ راہل گاندھی کی منشاء کے باوجود سونیا گاندھی کو تب تک کے لئے بدستور پارٹی کا عبوری صدر مقرر کیا گیا، جب تک پارٹی کا مکمل اجلاس نہیں بلایا جاتا، جس میں پہلے ورکنگ کمیٹی کے اراکین کا انتخاب ہوگا اور اُس کے بعد پارٹی صدر کا۔ اس ضمن میں منصوبہ بند طریقے سے مطابقت پیدا کی جائے گی۔ یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کانگریس کے اندر گاندھی خاندان کے خلاف بغاوت ہوسکتی ہے۔ اس وجہ سے سونیا گاندھی دباو میں آجائیں گی اور نتیجے کے طور پر پارٹی کے سرکردہ لیڈران اور راہل گاندھی کے حامیوں کا یکساں طور پر خیال رکھا جائے گا۔ اس صورتحال میں اگر راہل گاندھی کو پارٹی صدر بنایا بھی جائے گا، لیکن اصل اختیار سونیا گاندھی اور پرینکا گاندھی کے پاس ہی ہوگا۔

چونکہ کانگریس کے پاس تین ہی آپشن ہیں، سونیا، پرینکا اور راہل۔ یہ بھی سچ ہے کہ گاندھی خاندان کانگریس پر اپنے شاہانہ کنٹرول کو کھونا نہیں چاہیےگا۔ راہل گاندھی بھی اپنی سیاسی اہمیت جتانے کےلئے پارٹی کےلئے دی گئیں اپنی قربانیوں کے بارے میں باتیں کرتے ہیں۔

سال 2024ء تک کانگریس اپنے گھر کو ٹھیک کرنے میں محو رہے گی اور اس دوران وزیر اعظم نریندرا مودی رام مندر میں پوچا کرنے کے بعد اگلی معیادِ حکومت کےلئے لوگوں سے ووٹ مانگیں گے۔ تاہم یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس دُنیا میں کانگریس کے لوگوں کی خوش اُمیدی کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ لوگوں کے حقوق کےلئے سڑکوں پر لڑنے کے بجائے وہ پارٹی میں اپنی بالادستی کے لئے آپس میں لڑر ہے ہیں۔ اُن کو یہ کہنا اچھا لگتا ہے کہ جب مودی اور بی جے پی غلطی کرے گی تو اُس وقت کانگریس ہی واحد متبادل ہوگی اور اسے واپس اقتدار حاصل ہوجائے گا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.