جب سے ہم نے پہلی بار کورونا وائرس بیماری کا نام سنا ہے، تب سے پوری دُنیا بدل گئی ہے۔ اب ماسک پہننا اور جسمانی دوریاں بنائے رکھنا ایک معمول کی بات ہوکر رہ گئی ہے۔ ویکسین کی عدم موجودگی میں وبا کا پھیلاو کم کرنے کا سب سے اہم ذریعہ جسمانی دوریاں بنائے رکھنا ہے۔ حالانکہ جسمانی دوریاں بنائے رکھنا بنیادی انسانی فطرت کے بالکل برعکس ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ قربت رکھنا انسانی فطرت کا حصہ ہے۔ کووِڈ19 کے خوف کی وجہ سے ہمیں قریبی رشتہ داروں اور دوستوں سے دوریاں بنائے رکھنا پڑ رہا ہے۔ ہم سیر و سیاحت پر اور خاندانی تقریبات میں بھی نہیں جا پاتے ہیں۔ اس وجہ سے ہم سب شدید تناو کا شکار ہیں۔ ہم اپنے افراد خانہ کے ساتھ بھی تناو سے چھٹکار نہیں پارہے ہیں۔ ہم پر وائرس کا خوف طاری ہے اور ہمیں اپنے عزیز و اقارب کے بیماری میں مبتلا ہوجانے اور اُن کی معاشی حالت خراب ہونے کی بھی فکر ستارہی ہے۔ ہ اس طرح کی وجوہات سے بھی تناو کا شکار ہورہے ہیں۔
وبا کی وجہ سے اس وقت پیدا شدہ صورتحال کا مقابلہ کرنا بہت سے لوگوں کے لئے ایک مشکل بات بن گئی ہے۔ لیکن سب سے زیادہ پریشان کن صورتحال کا سامنا بچوں اور بزرگوں کو کرنا پڑرہا ہے، جنہیں قرنطینہ میں رہنا پڑرہا ہے۔ اس کے علاوہ غریب طبقے سے وابستہ لوگ، جیسے کہ ڈیلی ویجرز اور مزدور طبقہ وبا کی وجہ سے پوری آبادی میں سب سے زیادہ خطرات سے دوچار ہیں۔ اسکے علاوہ طبی شعبے سے وابستہ لوگ بھی شدید خطرات سے دوچار ہیں، جو اس وبا میں ہر اول دستے کے بطور کام کرتے ہیں۔
اس لئے یہ ضروری ہے کہ ہم کووِڈ 19 وبا سے نمٹنے کے دوروان نفسیاتی صحت کے بارے میں بھی سوچیں اور مطلوبہ اقدامات کریں۔ کووِڈ 19 سے متعلق حکومت کی رہنما ہدایات میں دونوں یعنی جسمانی اور نفسیاتی صحت کے حوالے سے جانکاری فراہم کی جانی چاہیے۔ عوامی جانکاری مہم، کے تحت لوگوں کو جسمانی دوریان بنائے رکھنے کی تلقین کرنے کے ساتھ ساتھ سماجی سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں رہنے کی تلقین بھی کی جانی چاہیے۔
ہم کووِڈ 19 کی وبا کے دوران نفسیاتی تناو کے مسئلے سے نمٹنے کےلئے کچھ آسان اقدامات کرسکتے ہیں:
۔۔۔۔ ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں رہیں: الگ تھلگ رہنے اور ایک دوسرے سے جسمانی دوریاں بنائے رکھنا پریشانی اور جھنجھلا ہٹ کا باعث بن سکتا ہے۔ اسلئے ہمیں اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ فون پر رابطے میں رہنا چاہیے۔ اُن کے ساتھ خوشگوار گفتگو کرنی چاہیے اور اس ضمن میں ایک دوسرے کی مدد کرتے اور تعاون دیتے رہنا چاہیے۔ ہمیں انٹرنیٹ پر زیادہ وقت گزارنے یا زیادہ دیر تک تنہا رہنے سے گریز کرنا چاہیے۔
۔۔۔۔ مثبت معمولات پر کاربند رہیں: روز مرہ کے مثبت معمولات ہمیں جسمانی اور نفسیاتی طور پر صحت مند رہنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ جیسے کہ وقت پر کھانا پینا، وقت پر سونا اور روزانہ ورزش کرنے کے ساتھ ساتھ اُن تفریحی کاموں میں محو رہنا، جو ہمیں خوشی محسوس کرائیں۔ ہمیشہ کوئی بھی کام مسلسل کرنے کے دوران چھوٹے چھوٹے وقفے لئے جانے چاہیں۔
۔۔۔۔ رنجیدہ چیزوں سے دور رہیں: ہمہ وقت کووِڈ19 کے بارے میں خبریں سنتے رہنا پریشان کن ہوسکتا ہے۔ہمیں کووِڈ کے حوالے پریشان کرنے والی خبروں اور اس سے جڑی مثبت خبروں جیسے کہ کتنے لوگ صحت یاب ہورہے ہیں ان کے تجربات کیا ہیں، یعنی دونوں مثبت اور منفی خبروں کو سننے کے حوالے سے توازن پیدا کرنا چاہیے۔
۔۔۔۔ منفی خیالات اور منفی جذبات کو قابو میں رکھیں: غور کرتے رہیے کہ کہیں آپ منفی خیالات کے حامل تو نہیں ہیں۔ یا جو کچھ بھی آپ سوچ رہے ہیں، کیا وہ سچ ہے؟ اُمید دلانے والا ہے؟ ضروری ہے؟ خوشگوار ہے؟ اگر آپ کے خیالات کچھ اس طرح کے ہیں، جو آپ کے مسائل کو حل کرنے میں آپ کی مدد کرنے کے بجائے آپ کی پریشانی اور اضطراب میں اضافہ کررہے ہیں، تو بہتر ہے کہ آپ اس طرح کے خیالات کو زیادہ اہمیت نہ دیں۔ اس طرح کے خیالات پر زیادہ توجہ نہ دیں، بلکہ انہیں اسی طرح گزرنے دیں، جیسے کہ ہمارے سامنے سے ٹریفک جارہا ہو یا آسمان پر چھائے بادل چھٹ رہے ہوں۔ اپنے خیالات فیصلہ کن نہ بننے دینے سے ہمارے اندر منفی جذبات اور احساسات کم ہوجاتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ کووِڈ19 ہمارے کنٹرول میں نہیں ہے لیکن ہم اپنی سوچ، اپنے خیالات، اور اپنی حرکتوں پر قابو رکھ سکتے ہیں۔
۔۔۔۔ اپنے بچوں اور بڑوں کو ان کی نفسیاتی صحت بہتر رکھنے میں اُن کی مدد کرنے کےلئے اُن کی باتیں سُنیں، اُن کی پریشانیوں کو تسلیم کریں اور اُن کے شکوک و شبہات کو دُور کریں، اُن کو دلاسہ دیں اور اُن کو درپیش مسائل حل کرنے میں اُن کی مدد کریں۔ موبائل فون اور اس جیسے دیگر آلات کا حد سے زیادہ استعمال نہ کریں بلکہ اپنی روز مرہ کی زندگی میں دوسری بہتر مصروفیات کو شامل کریں۔
۔۔۔۔ منصوبہ بندی کریں: اگر آپ کو وبا کے دوران اس سے متاثر ہونے کی فکر ستارہی ہے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ بلکہ یہ ضروری ہے کہ آپ کو اس وبا کے بارے میں ضروری جانکاری ہو اور اس وبا سے متاثرہ ہونے کی علامات کے بارے میں بھی پتہ ہو۔ بلکہ آپ ایمرجنسی فون نمبرات اور ایمرجنسی میں کام آنے والے رابطہ نمبرات آپ کے پاس ہوں۔ اس بات کا منصوبہ بھی بناکر رکھیں کہ آگر آپ یا آپ کے افراد خانہ میں کوئی بیمار ہوجائے تو اس صورت میں آپ کو کس کلنک پر یا کس اسپتال میں جانا چاہیے۔
۔۔۔۔ اپنے اضطراب کو قابو میں رکھیں: اپنے تناو دور کرنے کی تدابیر کریں۔ جیسے کہ تناو کے وقت گہری سانسیں لیں۔ آرام دہ حالت میں بیٹھنے کے بعد اپنے کندھوں کو ڈھیلا چھوڑیں، اور اپنی آنکھیں بند رکھیں۔ اس کے بعد آرام سے سانس لیں۔ بالکل آرام اور آسانی کے ساتھ سانس اندر لیں اور چار تک گنیں۔ سانس کے ذریعے اپنے پیٹ کو پھولنے دیں۔ اس کے بعد سانس کو روک دیں اور دو تک گنیں۔ اس کے بعد آہستگی سے سانس چھوڑ دیں اور ایسا کرتے وقت چھ تک گنیں۔ اس طرح کی مشق دس منٹ تک کرتے رہیں۔ اس سے بے چینی دور ہوسکتی ہے۔
۔۔۔۔ مندرجہ بالا باتیں انفرادی سطح پر تناو کو کم کرنے میں کار گر ثابت ہوسکتی ہیں۔ لیکن اجتماعی یعنی کمونٹی سطح پر تناو سے چھٹکارا حاصل کرنا قدرے مشکل کام ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب وبا پھیلی ہو اور یہ بھی واضح نہ ہو کہ اس کے اثرات کب تک قائم رہیں گے، سماجی سطح پر تناو سے چھٹکارا پانا ایک مشکل کام ہے۔ اس کےلئے ضروری ہے کہ اجتماعی یعنی کمونٹی سطح پر کچھ تدابیر اختیار کی جائیں۔ تاکہ وبا سے نمٹنے کا رجحان پیدا ہو۔ اس وبا کے اثرات سے ابھرنے کی اجتماعی قوت پیدا ہو اور اس سے نمٹنے کی تیاری میں وسعت پیدا ہو۔ اس طرح کے اقدامات کےلئے کمونٹی سطح پر رابطہ بنائے رکھنے، مریضوں اور اُن کے افراد خانہ اور دیگر لوگوں کے ساتھ رابطہ بنائے رکھا جائے۔ اجتماعی سطح پر قوتِ برداشت میں اضافہ کرنے کےلئے کچھ اس طرح کے اقدامات کئے جاسکتے ہیں:
۔۔۔۔ پرائمری ہیلتھ اور مینٹل ہیلتھ کے شعبوں کا موثر اشتراک قائم کیا جائے۔ تاکہ کووِڈ19 سے متاثرہ لوگوں کا علاج و معالجے کے ساتھ ساتھ اس بحرانی صورتحال میں اس کے عزیز و اقارب کی ہمت افزائی بھی کی جاسکے۔ اسکے علاوہ اس وبا کے دور میں اپنی نوکریاں کھو بیٹھے لوگوں، طبی شعبے سے جڑے افراد، بزرگوں، معذوروں اور قرنطینہ میں رہ رہے افراد کی کی کمونٹی سطح پر مدد کرنے کی ضرورت ہے۔
۔۔۔۔ سب سے زیادہ خطرات سے دوچار نفسیاتی بیماریوں کا شکار لوگوں اور بنیادی ضروریات سے محروم لوگوں کو طبی ذرائع فراہم کرانے کےلئے نرالے طریقے اختیار کئے جائیں اور اس ضمن میں اجتماعی سطح پر مطلوبہ کلچر پیدا کیا جائے۔
۔۔۔۔ سماجی سطح پر تنظیمیں قائم کرکے انہیں متحرک کیا جائے۔ان تنظیموں کے ذریعے لوگوں کو مشکل حالات سے ابھرنے کی صلاحیت پیدا کرنے کی تدابیر کی جائیں۔ لوگوں کو بتایا جائے کہ وہ ضرورت پڑنے پر ان تنظیموں سے تعاون اور مدد طلب کرسکتے ہیں۔
۔۔۔۔ ظاہر ہے کہ کووِڈ19 کی وجہ سے سماج پر دُور رس اثرات مرتب ہونگے۔ اسلئے اجتماعی سطح پر لوگوں میں حالات سے نمٹنے کی قوت بڑھانے کی کوششیں سماجی انصاف کے اصولوں پر مشتمل ہونی چاہیں۔ لوگوں کو بااختیار بنانے کےلئے ایک سیاسی قوت ارادی کی ضرورت ہے اور متحرک ہوجانے کی بھی ضرورت ہے۔
( یہ مضمون لکھنے والے مصنفین انڈین انسٹی چیوٹ آف پبلک ہیلتھ، حیدرآباد سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئیں آرا، اُن کی ذاتی ہیں)