واشنگٹن: امریکہ میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ایک اور فیصلہ واپس لے لیا گیا اور امریکہ ممکنہ طور پر اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کا دوبارہ حصہ بننے جارہا ہے۔ امریکہ ممکنہ طور پر اقوام متحدہ کی تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی تنظیم، یونیسکو میں واپس شامل ہونے کا اعلان کرنے جارہا ہے جسے اس نے 5 سال پہلے چھوڑ دیا تھا۔
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2017 میں امریکہ کو اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے سے اس بنیاد پر نکالنے کا فیصلہ کیا کہ وہ اسرائیل کے خلاف متعصبانہ رویہ رکھتا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اس وقت اپنا اسرائیل نواز مؤقف واضح طور پر ظاہر کیا اور 2018 میں باضابطہ طور پر دستبردار ہوگیا۔ اس سے قبل سابق صدر رونالڈ ریگن نے 1983 میں یونیسکو سے امریکہ کو نکال لیا تھا، لیکن سابق صدر جارج ڈبلیو بش نے 2002 میں دوبارہ شمولیت اختیار کی تھی۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ اس نے پہلے ہی 8 جون کو یونیسکو کو ایک خط روانہ کر دیا ہے جس میں دوبارہ شمولیت کے منصوبے کی اطلاع دی گئی ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن کی حکومت، بین الاقوامی تعاون کو ترجیح دیتے ہوئے، پہلے ہی ایسے متعدد اداروں میں دوبارہ شامل ہو چکی ہے جن سے امریکہ، ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں دستبردار ہو گیا تھا۔
بائیڈن انتظامیہ نے اقتدار سنبھالتے ہی کہا تھا کہ وہ یونیسکو میں دوبارہ شامل ہونے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اور مارچ میں جب اگلے مالی سال کا بجٹ پیش کیا گیا، انڈر سیکریٹری آف اسٹیٹ فار مینجمنٹ جان باس نے کہا کہ انتظامیہ کا خیال ہے کہ یونیسکو میں دوبارہ شمولیت سے امریکہ کو چین کے ساتھ عالمی دشمنی میں مدد ملے گی، جس نے اقوام متحدہ کی تنظیموں میں بڑی رقم کی سرمایہ کاری کی ہے۔
باس نے کہا کہ یونیسکو میں دوبارہ شمولیت سے ہمیں ایک اہم موقع کی قیمت سے نمٹنے میں مدد ملے گی جو چین کے ساتھ ہمارے عالمی مقابلے میں ہماری غیر موجودگی پیدا کر رہی ہے۔ اگر ہم چین کے ساتھ ڈیجیٹل دور کے مقابلے کے بارے میں واقعی سنجیدہ ہیں، تو ہم اس اہم فورم سے مزید غیر حاضر رہنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔