پاکستان کے شہر بنوں کے ایک پارک میں اسلام پسندوں اور مذہبی رہنماؤں کی جانب سے فحاشی پھیلانے کے خلاف احتجاج کے بعد حکام نے خواتین کے پارک کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس سے خواتین میں ہنگامہ بپا ہوگیا ہے اور اس کارروائی غلط قرار دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام اسلام پسندوں کے وسیع دباؤ کا حصہ ہے۔ یہ اصطلاح، جو مسلم اکثریتی پاکستان میں بڑھتی ہوئی اسلامی بنیاد پرستی کی طرف اشارہ کرتی ہے، پڑوسی ملک افغانستان میں طالبان کی انتہا پسند حکومت سے متاثر ہے۔ Women Park Closed in Pakistan
ایک مقامی کارکن اور وکیل نتاشا سمن نے کہا کہ یہ ایک غیر انسانی اور غیر آئینی عمل ہے۔ ہماری نقل و حرکت پر کوئی پابندی نہیں لگا سکتا۔ سمن نے کہا کہ پاکستانی آئین تمام شہریوں کو نقل و حرکت کی آزادی کی اجازت دیتا ہے۔ خواتین کارکنوں کا کہنا تھا کہ پارک میں صرف خواتین، لڑکیاں اور چھوٹے بچے داخل ہوتے ہیں، جہاں 12 سال سے زیادہ عمر کے لڑکوں کو اجازت نہیں ہے۔ کارکنوں نے یہ بھی کہا کہ تمام خواتین زائرین اسلامی روایات کے مطابق حجاب یا ہر قسم کا برقع پہنتی تھیں۔ شہر میں اسلامی رہنماؤں اور علما کے احتجاج کے دو دن بعد حکام نے 23 اگست کو پارک کو بند کر دیا تھا۔
شہر بنوں میں پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن سیدہ یاسمین صفدر نے کہا کہ ہم خواتین پر فحاشی پھیلانے کا الزام لگا کر کسی کو ہمارے حقوق چھیننے کی اجازت نہیں دینا چاہتے۔ صفدر نے کہا کہ اگر علماء کو عوام کے بارے میں فکر ہے تو حکام کو علاقے کو بند کرنے کے بجائے ان مسائل کو حل کرنا چاہیے تھا۔ بنوں میں ایک سیاسی کارکن احتشام افغان نے کہا کہ خواتین کے پارک کو بند کرنے کی مہم اسلام پسندوں کی جانب سے افغانستان میں طالبان کی سخت پالیسیوں کی تقلید کے لیے مشترکہ کوششوں کا حصہ ہے۔
افغانستان میں جو کچھ بھی ہوتا ہے اس کا براہ راست اثر خیبر پختونخواہ پر پڑتا ہے، افغان نے شمال مغربی پاکستانی صوبے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، جس کی سرحد افغانستان سے ملتی ہے۔ ہمیں خدشہ ہے کہ بنوں شہر اب طالبانیوں کے نشانے پر ہے۔