ETV Bharat / international

Russia Ukraine War: روسی حملے کی مخالفت، اب پوتن کے قریبی بھی ساتھ چھوڑ رہے ہیں

یوکرین پر حملے کی خاموش مخالفت روس میں بھی شروع ہو گئی ہے۔ روس کی متعدد اہم شخصیات نے یوکرین پر حملے کی مذمت کی ہے اور کئی بڑے افسران نے حکومت کے زیر انتظام چلنے والی کمپنیوں سے استعفیٰ دے کر اپنا احتجاج بھی درج کرا دیا ہے۔ اس دوران پوتن کے قریبی اناتولی چوبائیس نے بھی اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔Russia Ukraine War

russia ukraine war, Some prominent Russians quit jobs, refuse to support war
روسی حملے کی مخالفت، اب پوتن کے قریبی بھی ساتھ چھوڑ رہے ہیں
author img

By

Published : Mar 26, 2022, 9:22 PM IST

تیس سال تک بین الاقوامی فورمز پر روس کی نمائندگی کرنے والے اناتولی چوبائیس کے استعفیٰ نے روسی حکومت میں ہلچل مچا دی ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ یوکرین پر حملے کے خلاف کئی عہدے داروں نے احتجاجاً مختلف عہدوں سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ اناتولی چوبائیس کا قد پوتن کے دور حکومت سے پہلے ہی حکومت میں کافی بڑا تھا۔ وہ کئی بین الاقوامی اداروں میں صدر ولادیمیر پوتن کے ایلچی بھی تھے، لیکن انہوں نے یوکرین پر حملے کے بعد اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ اناتولی چوبائیس کا قد پیوٹن کے دور حکومت سے پہلے ہی حکومت میں بہت بڑا تھا۔ وہ کئی بین الاقوامی اداروں میں صدر ولادیمیر پوٹن کے ایلچی بھی تھے۔ لیکن انہوں نے یوکرین پر حملے کے بعد اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ خیال کیا جارہا ہے کہ وہ یوکرین کے بارے میں پوتن کے نقطہ نظر سے متفق نہیں تھے۔ قابل ذکر ہے کہ روسی صدر پوتن نے احتجاج کرنے والوں کو غدار قرار دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ ایسے لوگوں کو روسی معاشرہ سائیڈ لائن کر دے گا۔

اناتولی چوبائیس ANATOLY CHUBAIS: یوکرین پر حملہ کرنے کی وجہ سے روس کی کچھ اعلیٰ شخصیات نے کریملن سے منہ موڑ لیا ہے، 66 سالہ اناتولی چوبائیس ان میں سے ایک ہیں۔ میڈیا رپورٹس نے چوبائیس کے استعفیٰ کی تصدیق کر دی ہے۔اناتولی چوبائیس کے قد کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہیں سابق روسی صدر یلتسین نے اپنے دور حکومت میں نجکاری مہم کے لیے منتخب کیا تھا۔ چوبائیس نے ہی اس وقت کے صدر یلتسین سے پوتن کو حکومت میں لانے کی سفارش کی تھی۔ ان کے اس اقدام کے بعد پوتن کامیابی کی سیڑھی چڑھتے رہے یہاں تک کہ پوتن 2000 میں روس کے صدر بن جب یلتسن نے اقتدار چھوڑ دیا تھا۔ چوبائیس 1994 سے 1996 اور 1997-98 تک روس کے نائب وزیر اعظم بھی رہے۔ روسی اخبار نے بدھ کو اطلاع دی کہ چوبائیس کو اس ہفتے استنبول میں دیکھا گیا تھا۔ یوکرین پر حملے کے بعد کئی روسی شہری استنبول کی طرف جا رہے ہیں۔ بدھ کے روز، کریملن نے یلتسین کے استعفیٰ کے بارے میں میڈیا رپورٹس کی تصدیق کی۔ رپورٹ میں نامعلوم ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا کہ انہوں نے جنگ کی وجہ سے عہدہ چھوڑ دیا۔ انہوں نے اپنے استعفے پر عوامی طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

آرکاڈی ڈورکوچ ARKADY DVORKOVICH: آرکاڈی ڈورکوچ بھی روس کے نائب وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔ وہ اس وقت بین الاقوامی شطرنج فیڈریشن (FIDE) کے صدر ہیں۔ انہوں نے 14 مارچ کو مدر جونز میگزین کو دیے گئے ایک انٹرویو میں یوکرین کے ساتھ جنگ ​​کے لیے کریملن کی حکمران جماعت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ جنگ کسی کی زندگی کے لیے بدترین چیز ہے۔ لڑائی جہاں بھی ہو، کسی سے بھی ہو، غلط ہی ہے۔ جنگیں صرف زندگی ہی نہیں ختم کرتی بلکہ امیدوں اور امنگوں کو بھی مار دیتی ہیں، رشتوں کو تباہ کردیتی ہے۔ آرکاڈی ڈورکوچ نے کہا کہ بین الاقوامی شطرنج فیڈریشن (FIDE) اس بات کو یقینی بنا رہی ہے کہ روس اور بیلاروس کے نمائندوں کو جنگ کے خاتمے تک فیڈریشن کی سرکاری تقریبات میں شرکت کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ قابل ذکر ہے کہ انٹرنیشنل چیس فیڈریشن (FIDE) نے پوتن کی حمایت کرنے پر شطرنج کے ایک بڑے روسی کھلاڑی پر چھ ماہ کے لیے پابندی لگا دی ہے۔ فی الحال ڈورکووچ کا بیان ان کے لیے ایک مسئلہ بن گیا ہے۔ یونائیٹڈ رشیا پارٹی کے عہدیداروں نے انہیں سکولکوو فاؤنڈیشن کے چیئرمین سے نرطرف کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ فاؤنڈیشن نے اطلاع دی ہے کہ ڈورکوچ نے بھی اپنا عہدہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

Anti War Protesters in Russia: روسی پولیس نے ہزاروں جنگ مخالف مظاہرین کو گرفتار کیا

Russia Ukraine War: روسی چینل کے ملازمین لائیو شو کے دوران مستعفی

لیلیا گلڈیوا LILIA GILDEYEVA: لیلیا گلڈیوا سرکاری نیوز چینل این ٹی وی میں کافی وقت سے بطور اینکرنگ خدمت انجام دیتی رہیں اور دو دہائیوں تک کریملن کے ماتحت کام کر رہی تھیں۔ یوکرین پر حملے کے بعد انھوں نے ملازمت ترک کردی۔نیوز ویب سائٹ دی انسائیڈر کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انھوں نے بتایا کہ انھوں نے یوکرین پر حملے کے پہلے دن 24 فروری کو ملازمت ترک کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ یوکرین پر حملے کی خبر سے وہ صدمے میں ہیں۔ وہ کئی دنوں تک اپنے آپ سے لڑتی رہی، لیکن اس کا فیصلہ درست تھا۔ گلڈیوا نے کہا کہ روسی ٹی وی چینلز پر حکام کا سختی سے کنٹرول ہے۔ چینلز کو خبروں کی کوریج پر حکام سے احکامات ملتے تھے۔ انھوں نے اس طرح کے نظام میں 2014 سے کام کرنا شروع کیا تھا، جب روس کریمیا کا الحاق کر رہا تھا۔ اس کے علاوہ روس نے یوکرین میں علیحدگی پسند بغاوت کی حمایت شروع کر دی۔گلڈیوا نے کہا کہ جب آپ سسٹم کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں تو آپ کو اپنے اندر کی کمی محسوس نہیں ہوتی۔

زَنّا اگلاکووا ZHANNA AGALAKOVA: زنا اگلاکووا ٹی وی چینل چینل ون کی صحافی بھی تھیں۔ انہوں نے بطور اینکر اس چینل میں 20 سال سے زیادہ کا عرصہ گزارا۔ وہ پیرس، نیویارک اور دیگر مغربی ممالک میں نیوز چینلز کی رپورٹر بھی تھیں۔ اگلاکووا نے یوکرین پر روس کے حملے کے تین ہفتے بعد استعفیٰ دے دیا۔زنا نے کہا کہ ہم ایک ایسے موڑ پر پہنچ گئے ہیں جہاں ٹی وی اور خبروں پر صرف ایک شخص اور اس کے قریبی لوگوں کی کہانی دکھائی دے رہی ہے۔ جس کی وجہ سے روس خبروں میں کھو گیا۔ انہوں نے کہا کہ 2014 میں کریمیا کے الحاق اور یوکرین میں علیحدگی پسندوں کی حمایت کا پروپیگنڈا کیا گیا تھا۔ ایک رپورٹر کے طور پر وہ امریکہ پر تنقید کرتی رہیں۔ میری رپورٹ میں جھوٹ نہیں تھا، لیکن پروپیگنڈہ سسٹم بالکل اسی طرح کام کرتا ہے۔ آپ ایک معتبر حقیقت کو خلط ملط کرکے پروموٹ کرتے ہیں۔

تیس سال تک بین الاقوامی فورمز پر روس کی نمائندگی کرنے والے اناتولی چوبائیس کے استعفیٰ نے روسی حکومت میں ہلچل مچا دی ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ یوکرین پر حملے کے خلاف کئی عہدے داروں نے احتجاجاً مختلف عہدوں سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ اناتولی چوبائیس کا قد پوتن کے دور حکومت سے پہلے ہی حکومت میں کافی بڑا تھا۔ وہ کئی بین الاقوامی اداروں میں صدر ولادیمیر پوتن کے ایلچی بھی تھے، لیکن انہوں نے یوکرین پر حملے کے بعد اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ اناتولی چوبائیس کا قد پیوٹن کے دور حکومت سے پہلے ہی حکومت میں بہت بڑا تھا۔ وہ کئی بین الاقوامی اداروں میں صدر ولادیمیر پوٹن کے ایلچی بھی تھے۔ لیکن انہوں نے یوکرین پر حملے کے بعد اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ خیال کیا جارہا ہے کہ وہ یوکرین کے بارے میں پوتن کے نقطہ نظر سے متفق نہیں تھے۔ قابل ذکر ہے کہ روسی صدر پوتن نے احتجاج کرنے والوں کو غدار قرار دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ ایسے لوگوں کو روسی معاشرہ سائیڈ لائن کر دے گا۔

اناتولی چوبائیس ANATOLY CHUBAIS: یوکرین پر حملہ کرنے کی وجہ سے روس کی کچھ اعلیٰ شخصیات نے کریملن سے منہ موڑ لیا ہے، 66 سالہ اناتولی چوبائیس ان میں سے ایک ہیں۔ میڈیا رپورٹس نے چوبائیس کے استعفیٰ کی تصدیق کر دی ہے۔اناتولی چوبائیس کے قد کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہیں سابق روسی صدر یلتسین نے اپنے دور حکومت میں نجکاری مہم کے لیے منتخب کیا تھا۔ چوبائیس نے ہی اس وقت کے صدر یلتسین سے پوتن کو حکومت میں لانے کی سفارش کی تھی۔ ان کے اس اقدام کے بعد پوتن کامیابی کی سیڑھی چڑھتے رہے یہاں تک کہ پوتن 2000 میں روس کے صدر بن جب یلتسن نے اقتدار چھوڑ دیا تھا۔ چوبائیس 1994 سے 1996 اور 1997-98 تک روس کے نائب وزیر اعظم بھی رہے۔ روسی اخبار نے بدھ کو اطلاع دی کہ چوبائیس کو اس ہفتے استنبول میں دیکھا گیا تھا۔ یوکرین پر حملے کے بعد کئی روسی شہری استنبول کی طرف جا رہے ہیں۔ بدھ کے روز، کریملن نے یلتسین کے استعفیٰ کے بارے میں میڈیا رپورٹس کی تصدیق کی۔ رپورٹ میں نامعلوم ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا کہ انہوں نے جنگ کی وجہ سے عہدہ چھوڑ دیا۔ انہوں نے اپنے استعفے پر عوامی طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

آرکاڈی ڈورکوچ ARKADY DVORKOVICH: آرکاڈی ڈورکوچ بھی روس کے نائب وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔ وہ اس وقت بین الاقوامی شطرنج فیڈریشن (FIDE) کے صدر ہیں۔ انہوں نے 14 مارچ کو مدر جونز میگزین کو دیے گئے ایک انٹرویو میں یوکرین کے ساتھ جنگ ​​کے لیے کریملن کی حکمران جماعت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ جنگ کسی کی زندگی کے لیے بدترین چیز ہے۔ لڑائی جہاں بھی ہو، کسی سے بھی ہو، غلط ہی ہے۔ جنگیں صرف زندگی ہی نہیں ختم کرتی بلکہ امیدوں اور امنگوں کو بھی مار دیتی ہیں، رشتوں کو تباہ کردیتی ہے۔ آرکاڈی ڈورکوچ نے کہا کہ بین الاقوامی شطرنج فیڈریشن (FIDE) اس بات کو یقینی بنا رہی ہے کہ روس اور بیلاروس کے نمائندوں کو جنگ کے خاتمے تک فیڈریشن کی سرکاری تقریبات میں شرکت کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ قابل ذکر ہے کہ انٹرنیشنل چیس فیڈریشن (FIDE) نے پوتن کی حمایت کرنے پر شطرنج کے ایک بڑے روسی کھلاڑی پر چھ ماہ کے لیے پابندی لگا دی ہے۔ فی الحال ڈورکووچ کا بیان ان کے لیے ایک مسئلہ بن گیا ہے۔ یونائیٹڈ رشیا پارٹی کے عہدیداروں نے انہیں سکولکوو فاؤنڈیشن کے چیئرمین سے نرطرف کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ فاؤنڈیشن نے اطلاع دی ہے کہ ڈورکوچ نے بھی اپنا عہدہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

Anti War Protesters in Russia: روسی پولیس نے ہزاروں جنگ مخالف مظاہرین کو گرفتار کیا

Russia Ukraine War: روسی چینل کے ملازمین لائیو شو کے دوران مستعفی

لیلیا گلڈیوا LILIA GILDEYEVA: لیلیا گلڈیوا سرکاری نیوز چینل این ٹی وی میں کافی وقت سے بطور اینکرنگ خدمت انجام دیتی رہیں اور دو دہائیوں تک کریملن کے ماتحت کام کر رہی تھیں۔ یوکرین پر حملے کے بعد انھوں نے ملازمت ترک کردی۔نیوز ویب سائٹ دی انسائیڈر کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انھوں نے بتایا کہ انھوں نے یوکرین پر حملے کے پہلے دن 24 فروری کو ملازمت ترک کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ یوکرین پر حملے کی خبر سے وہ صدمے میں ہیں۔ وہ کئی دنوں تک اپنے آپ سے لڑتی رہی، لیکن اس کا فیصلہ درست تھا۔ گلڈیوا نے کہا کہ روسی ٹی وی چینلز پر حکام کا سختی سے کنٹرول ہے۔ چینلز کو خبروں کی کوریج پر حکام سے احکامات ملتے تھے۔ انھوں نے اس طرح کے نظام میں 2014 سے کام کرنا شروع کیا تھا، جب روس کریمیا کا الحاق کر رہا تھا۔ اس کے علاوہ روس نے یوکرین میں علیحدگی پسند بغاوت کی حمایت شروع کر دی۔گلڈیوا نے کہا کہ جب آپ سسٹم کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں تو آپ کو اپنے اندر کی کمی محسوس نہیں ہوتی۔

زَنّا اگلاکووا ZHANNA AGALAKOVA: زنا اگلاکووا ٹی وی چینل چینل ون کی صحافی بھی تھیں۔ انہوں نے بطور اینکر اس چینل میں 20 سال سے زیادہ کا عرصہ گزارا۔ وہ پیرس، نیویارک اور دیگر مغربی ممالک میں نیوز چینلز کی رپورٹر بھی تھیں۔ اگلاکووا نے یوکرین پر روس کے حملے کے تین ہفتے بعد استعفیٰ دے دیا۔زنا نے کہا کہ ہم ایک ایسے موڑ پر پہنچ گئے ہیں جہاں ٹی وی اور خبروں پر صرف ایک شخص اور اس کے قریبی لوگوں کی کہانی دکھائی دے رہی ہے۔ جس کی وجہ سے روس خبروں میں کھو گیا۔ انہوں نے کہا کہ 2014 میں کریمیا کے الحاق اور یوکرین میں علیحدگی پسندوں کی حمایت کا پروپیگنڈا کیا گیا تھا۔ ایک رپورٹر کے طور پر وہ امریکہ پر تنقید کرتی رہیں۔ میری رپورٹ میں جھوٹ نہیں تھا، لیکن پروپیگنڈہ سسٹم بالکل اسی طرح کام کرتا ہے۔ آپ ایک معتبر حقیقت کو خلط ملط کرکے پروموٹ کرتے ہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.