روس یوکرین کے درمیان ایک ماہ سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے روس کے ساتھ مذاکرات کرنے والے یوکرینی وفد کے ایک رکن نے بتایا کہ دونوں فریقین نے پیر کو ترکی میں ذاتی طور پر ملاقات کا فیصلہ کیا ہے۔ دوسری جانب ترک صدر رجب طیب اردوگان نے روسی صدر ولادیمیر پوتن سے ٹیلی فونک گفتگو میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔ یوکرین کی پارلیمنٹ میں صدر ولادیمیر زیلینسکی کی سرونٹ آف دی پیپلز پارٹی کے رہنما ڈیوڈ ارخمیا نے فیس بک پر کہا کہ ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے ہونے والی بات چیت میں ذاتی طور پر بات چیت کرنے پر اتفاق ہوا ہے۔ انہوں نے مزید کوئی معلومات نہیں دی۔ تاہم روس کے چیف مذاکرات کار نے کہا کہ انفرادی بات چیت پیر کے بجائے منگل کو شروع ہوگی۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے اتوار کو روسی صدر ولادیمیر پوتن سے ٹیلی فون پر بات چیت کی اور یوکرین میں جنگ بندی کی ضرورت پر زور دیا۔ یہ اطلاع اردگان کے دفتر نے دی ہے۔بیان کے مطابق اردگان نے خطے میں انسانی صورتحال کو بہتر بنانے پر بھی زور دیا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ روسی اور یوکرینی حکام کے درمیان اگلی ملاقات استنبول میں ہونی چاہیے۔ تاہم اس کے لیے وقت کی کوئی حد نہیں بتائی گئی۔
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے روسی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا ملک غیرجانبداری کا اعلان کر سکتا ہے اور روس کو سلامتی کی ضمانتیں پیش کر سکتا ہے تاکہ بغیر کسی تاخیر کے امن قائم کیا جا سکے۔صدر ولودیمیر زیلنسکی نے یہ بیان دونوں فریقوں کے درمیان مذاکرات کے متوقع دور سے پہلے دیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ روس کے رہنما کے ساتھ صرف آمنے سامنے ملاقات سے ہی جنگ ختم ہو سکتی ہے۔زیلنسکی نے اس بات پر بھی زور دے کر کہا کہ یوکرین کو پہلے اس کی خودمختاری کو یقینی بنانا اور ماسکو کو اس کے تراشنے یہ کسی علاقے پر قبضہ کرنے سے روکنا ہے۔ یوکرین کے ایک سینیئر اہلکار نے کہا ہے کہ وہ ترکی میں کیف اور ماسکو کے نمائندوں کے درمیان بات چیت کے دوران کسی پیش رفت کی توقع نہیں رکھتے۔وزارت داخلہ کے مشیر ویڈیم ڈینی سنکو نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ اہم مسائل پر کوئی پیش رفت ہو گی۔
روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے فی الحال پوتن اور زیلسنکی کے درمیان اعلیٰ سطح کے مذاکرات کے امکان کو مسترد کر دیا ہے۔ سرگئی لاوروف نے کہا کہ خیالات کے تبادلے کے لیے کوئی بھی فوری ملاقات نتیجہ خیز ہو گی، انہوں نے مزید کہا کہ بات چیت اس وقت ہونی چاہیے جب یوکرین اور روس اہم مسائل پر اتفاق کے قریب ہوں۔ زیلنسکی نے جنگ کو ختم کرنے کے لیے پوتن کے ساتھ بار بار آمنے سامنے بات چیت کا مطالبہ کیا ہے۔ روس کے وزیر خارجہ نے یہ بھی کہا ہے کہ بیجنگ کے ساتھ ماسکو کے تعلقات اب تک کی مضبوط ترین سطح پر ہیں۔لاوروف کے تبصرے اس وقت سامنے آئے ہیں جب چین نے بار بار روس پر اس کے حملے کی وجہ سے عائد پابندیوں کی مخالفت کرتا رہا ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ وہ روس کے ساتھ معمول کے اقتصادی اور تجارتی تبادلے کو برقرار رکھے گا۔بیجنگ نے ماسکو کے حملے کی عوامی سطح پر مذمت کرنے سے بھی انکار کر دیا ہے۔
بھارتی نژاد ایک امریکی رکن پارلیمنٹ رو کھنہ نے کہا کہ بھارت کو یوکرین پر حملہ کرنے پر روسی صدر ولادیمیر پوتن کی مذمت کرنی چاہئے اور نئی دہلی کو روس یا چین سے تیل نہیں لینا چاہئے۔امریکی ایوان نمائندگان میں سلیکون ویلی کی نمائندگی کرنے والے کھنہ نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ بھارت اپنی طرف کا انتخاب کرے۔ میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں بھارت پر واقعی واضح رہا ہوں اور میرے خیال میں بھارت کو پوتن کی مذمت کرنی چاہیے اور بھارت کو روس یا چین سے تیل نہیں لینا چاہیے۔ ہمیں پوتن کو تنہا کرنے کے لیے دنیا کو متحد کرنا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں:
Russia Ukriane War: یوکرینی صدر نے کہا، کیف کو ناٹو کے ایک فیصد طیاروں اور ٹینکوں کی ضرورت ہے
Russia Ukraine War: جنگ میں فوجیوں کی ہلاکت پر روس و یوکرین کے متضاد دعوے
یوکرینی وزارت خارجہ نے پیر کو کہا کہ روسی فوج نے ماریوپول شہر کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے۔ وزارت نے ٹویٹ کیا’’ جب ماریوپول کے محاصرے پر بمباری کی جا رہی ہے، لوگ زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ شہر میں انسانی حالت تشویشناک ہے۔ روس کی مسلح افواج شہر کو خاک و خون میں بدل رہی ہیں‘‘۔ اس سے قبل صدر ولادیمیر زیلینسکی نے روسی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ روسی فوج نے ماریوپول کو مکمل طور پر بلاک کر دیا ہے۔
عالمی میڈیا کے مطابق روسی میڈیا کو روس کے میڈیا ریگولیٹر نے انتباہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ روسی میڈیا یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی کے انٹرویو کی رپورٹنگ سے باز رہے۔روسی میڈیا ریگولیٹر نے اپنے انتباہ میں مزید کہا کہ یوکرین کے صدر کا انٹرویو کرنے والے میڈیا ادارے کے خلاف تحقیقات شروع کردی گئی ہے۔ روسی میڈیا ریگولیٹر کا کہنا ہے کہ روسی میڈیا ادارے کے ایک اینکر نے یوکرین کے صدر زیلنسکی کا انٹرویو کیا ہے۔ دوسری جانب یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی نے اتوار کے روز ایک نئے قانون پر دستخط کیے جس کے تحت فوجیوں اور فوجی ساز و سامان کی نقل و حرکت کے بارے میں رپورٹنگ پر پابندی ہو گی جب تک کہ آرمی جنرل سٹاف ایسی معلومات کا اعلان نہ کرے۔یا اسے نشر کرنے کی اجازت نہ دیں۔