اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ Isaac Herzog نے سکیورٹی کشیدگی کے درمیان ترکی کے صدر رجب طیب اردوگان Recep Tayyip Erdogan سے فون پر بات کی۔ طیب اردوگان نے اپنے اسرائیلی ہم منصب اسحاق ہرزوگ کو بتایا کہ وہ مسلمانوں کے مقدس مہینے رمضان کے دوران مغربی کنارے اور مسجد اقصیٰ میں زخمی یا ہلاک ہونے والے فلسطینیوں سے بہت پریشان ہیں اور حالیہ دنوں میں مسجد الاقصیٰ پر چھاپے اور غزہ تک پھیلنے والا تشدد بھی پریشان کن ہے۔ اردوگان نے اس حساس وقت میں مسجد اقصیٰ کی حیثیت اور روحانیت کے خلاف اشتعال انگیزی اور دھمکیوں کی اجازت نہ دینے کی ضرورت پر زور دیا۔Israeli Forces Raid Al-Aqsa Mosque
ترکی، جو اسرائیل-فلسطینی تنازعہ کے دو ریاستی حل کی حمایت کرتا ہے، نے کہا ہے کہ اس کا خیال ہے کہ اسرائیل کے ساتھ میل جول سے اس مسئلے کا حل تلاش کرنے میں بھی مدد ملے گی، لیکن وہ اسرائیل کے ساتھ بہتر تعلقات کے لیے فلسطینیوں سے کیے گئے وعدوں کو ترک نہیں کرے گا۔
اسرائیلی صدر کے پریس آفس نے ایک بیان میں کہا کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان بات چیت اچھے اور کھلے جذبے کے ساتھ ہوئی۔ بیان میں یہ بھی کہا کہ "جھوٹی رپورٹوں کے برعکس، اسرائیل خاص طور پر اس عرصے کے دوران جمود اور مذہبی آزادی کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہا ہے، تاکہ تمام مذاہب کے نمائندے محفوظ طریقے سے اپنے تہواروں کو منا سکیں"۔ اردگان نے حالیہ دنوں کے واقعات کے حوالے سے تشویش اور درد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مقدس مقامات پر جمود مسلم دنیا کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ دونوں فریقین نے مسلسل رابطہ برقرار رکھنے پر اتفاق کیا۔
اس سے قبل ترک صدر رجب طیب اردوگان نے اپنے فلسطینی ہم منصب محمود عباس سے فون پر بات چیت کرکے یروشلم کی مسجد الاقصیٰ میں نمازیوں کے خلاف اسرائیل کے جارحیت کی مذمت کی ہے۔ اردوگان نے اتوار کے روز ٹویٹر پر کہا، ہم مسجد اقصیٰ میں یہودی جارحیت کے خلاف کھڑے ہوں گے۔ترکی ہمیشہ فلسطین کے ساتھ کھڑا رہے گا۔ ان پیش رفت کے پیش نظر تمام فلسطینی گروپوں کو اتحاد اور مفاہمت کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔"
مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان گزشتہ ہفتوں میں کشیدگی بڑھ گئی ہے، خاص طور پر جب مسلمانوں کے مقدس مہینے رمضان کے دوران جمعہ کو یہودیوں کے فسح کا تہوار شروع ہوا تھا۔ یروشلم میں مسجد اقصیٰ کے احاطے میں جمعہ کو فلسطینیوں اور اسرائیلی پولیس فورسز کے درمیان جھڑپوں میں 160 سے زائد افراد زخمی ہوگئے تھے اور تقریبا 400 فلسطینیوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ مارچ کے وسط سے اب تک ملک کے 14 باشندے اسرائیل جارحیت کے شکار ہو چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
Israeli Forces Raid Al-Aqsa Mosque: مسجد اقصیٰ میں اسرائیلی فوج کی کارروائی، عالمی برادری کی مذمت
قابل ذکر ہے کہ ترکی اور اسرائیل کے درمیان تعلقات 2010 میں اس وقت کشیدہ ہو گئے جب غزہ کی پٹی پر اسرائیلی ناکہ بندی توڑنے کی کوشش کرنے والے ترکی کی قیادت میں ایک فلوٹیلا (بحری جہازوں یا کشتیوں کا بیڑا) کی اسرائیلی فورسز سے جھڑپ ہوئی جس میں 10 ترک ہلاک ہو گئے تھے۔ اس کے علاوہ 2018 میں ایک اور حالیہ تنازعہ میں، ترکی نے اسرائیل کے سفیر کو امریکہ کی جانب سے یروشلم منتقل کرنے کے بعد ملک بدر کر دیا تھا۔ دونوں ممالک حالیہ مہینوں میں مفاہمت پر کام کر رہے ہیں۔ 9 مارچ کو، اسرائیلی صدر اسحاق ہزاریگ نے انقرہ کا دورہ کیا، جس کے دوران اردگان نے واضح طور پر فلسطین کے معاملے پر ترکی کی حساسیت کا اظہار کیا۔
وہیں متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کی وزیر مملکت برائے بین الاقوامی تعاون ریم بنت ابراہیم الہاشمی نے متحدہ عرب امارات میں اسرائیل کے سفیر امیر ہائیک کو طلب کر کے یروشلم میں مسجد اقصیٰ میں ہونے والے واقعات کی شدید مخالفت اور مذمت کی۔ الہاشمی نے ان واقعات کو فوری طور پر روکنے، نمازیوں کو مکمل تحفظ فراہم کرنے اور فلسطینیوں کے مذہبی رسومات کی ادائیگی کے حق کا احترام کرنے اور مسجد اقصیٰ کے تقدس کو پامال کرنے والے کسی بھی عمل کو روکنے کی ضرورت پر زور دیا۔متحدہ عرب امارات سنجیدہ مذاکرات کی طرف واپسی کا مطالبہ کر رہا ہے جس کا مقصد ایک منصفانہ اور جامع امن کے حصول اور 1967 کی سرحدوں پر ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ہے جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہے۔