پیٹرولیم برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم (اوپیک) اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے تیل کے پیداواری کوٹے میں کٹوتی کے بعد، امریکی صدر جو بائیڈن سعودی عرب کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کا دوبارہ جائزہ لیں گے۔ امریکی وائٹ ہاؤس نے منگل کو یہ اطلاع دی۔ وائٹ ہاؤس کی جانب سے یہ بیان سعودی عرب کی قیادت میں تیل پیدا کرنے والے ممالک کی جانب سے روس کی حمایت کرتے ہوئے تیل کی پیداوار کم کرنے کے فیصلے کے بعد سامنے آیا ہے۔ OPEC Cut Oil Production
تیل پیدا کرنے والی 13 ملکی تنظیم اوپیک اور ان کے 10 اتحادیوں نے گزشتہ ہفتے نومبر سے پیداوار میں 2 ملین بیرل یومیہ کمی کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کے بعد امریکہ کی ناراضگی بڑھ گئی ہے کیونکہ اس فیصلے کے باعث تیل کی قیمتوں میں مزید اضافے کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔
امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے سی این این کو بتایا کہ "اوپیک کے فیصلے کی روشنی میں، میں سمجھتا ہوں کہ صدر واضح طور پر سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات کا از سر نو جائزہ لینا چاہتے ہیں۔" انھوں نے کہا کہ میرے خیال میں صدر بہت واضح ہیں کہ یہ ایک ایسا رشتہ ہے جس کا ہمیں دوبارہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے، جس پر ہمیں دوبارہ نظرثانی کے لیے آمادہ ہونے کی ضرورت ہے۔
اوپیک کے اس فیصلے کو بڑی حد تک امریکہ کی سفارتی ناکامی کے طور پر بھی دیکھا جارہا ہے۔ کیونکہ روس اور یوکرین تنازعہ کے درمیان بائیڈن نے جولائی میں اپنے دورہ سعودی عرب کے دوران اس امید کا اظہار کیا تھا کہ سعودی عرب آنے والے ہفتوں میں عالمی سطح پر تیل کی سپلائی کو بڑھانے کے لیے اقدامات کرے گا۔ قابل ذکر ہے کہ بائیڈن نے صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد سعودی عرب کو بین الاقوامی سطح پر تنہا کرنے کے عزم کے بعد بھی یہاں کا دورہ کرنے جیسا بڑا اقدام اٹھایا۔
یہ بھی پڑھیں: US President in Saudi Arabia: امریکی صدر جو بائیڈن کی سعودی ولی عہد سے جدہ میں دو طرفہ ملاقات
تاہم اوپیک کے فیصلے نے اب وائٹ ہاؤس کو سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اوپیک کے فیصلے کو ایک اور روشنی میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ امریکہ میں وسط مدتی انتخابات ہونے والے ہیں، اور اگر تیل کی پیداوار میں کمی وسط مدتی انتخابات کے دوران آتی ہے تو پھر مہنگائی ووٹروں کے متاثر کر سکتی ہے۔یہ بائیڈن کی ڈیموکریٹک پارٹی کے لیے بھی ایک حساس لمحہ ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کو نومبر میں وسط مدتی انتخابات کا سامنا ہے۔ ادھر اپوزیشن ریپبلکن پارٹی اشیائے خوردونوش کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر حملہ کر رہی ہے۔
اوپیک کے اراکین نے کہا کہ وہ نومبر کے پیداواری کوٹے میں 20 لاکھ بیرل یومیہ کمی کریں گے۔ سعودی عرب نے منصوبہ بند پیداوار میں کمی کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ اوپیک کی ترجیح "پائیدار تیل کی منڈی" کو برقرار رکھنا ہے۔ سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے العربیہ چینل کو بتایا کہ یہ خالصتاً اقتصادی اقدام ہے اور تنظیم کے رکن ممالک نے اس پر متفقہ فیصلہ کیا ہے۔جب کہ امریکا کو لگتا ہے کہ اوپیک ممالک نے روس یوکرائن جنگ کے دوران دنیا بھر میں توانائی کی قیمتوں میں اضافے کے پیش نظر اپنا فیصلہ روس کے حق میں دیا ہے۔
وائٹ ہاؤس نے خبردار کیا کہ اوپیک کے اس اقدام سے کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک پر سب سے زیادہ منفی اثر پڑے گا جو پہلے سے ہی توانائی کی بلند قیمتوں سے دوچار ہیں۔