ETV Bharat / international

Ashraf Ghani on Afghan Collapse: اشرف غنی نے امریکہ کو افغانستان پر طالبان کے قبضے کا ذمہ دار ٹھہرایا

author img

By

Published : Aug 12, 2022, 5:48 PM IST

افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی نے حالیہ ایک انٹرویو میں جنگ زدہ ملک پر طالبان کے قبضے کے لیے امریکا، کابل کے سیاست دانوں اور دیگر کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ اشرف غنی 15 اگست 2021 کو طالبان کے افغان دارالحکومت میں داخل ہونے کے بعد کابل سے فرار ہو گئے تھے اور اب وہ متحدہ عرب امارات میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ Ashraf Ghani on Afghan Collapse

Ashraf Ghani
افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی

کابل: افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی نے اپنی حکومت کے گرنے کے تقریباً ایک سال بعد ایک انٹرویو میں انہوں نے جنگ زدہ ملک پر طالبان کے قبضے کے لیے امریکا، کابل کے سیاست دانوں اور دیگر کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ بدھ کے روز نئے قائم کردہ میڈیا آؤٹ لیٹ افغان براڈکاسٹنگ نیٹ ورک (ABN) کے ساتھ اپنے پہلے ٹیلی ویژن انٹرویو میں، سابق افغان صدر اشرف غنی نے خاص طور پر افغان امن کے لیے سابق امریکی سفیر زلمے خلیل زاد کے ساتھ ساتھ کئی ممتاز افغان سیاست دانوں کو اس کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔

اشرف غنی انٹرویو کے دروان زلمے خلیل زاد پر سب سے زیادہ ناراض نظر آئے جنہوں نے دوحہ میں طالبان کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس معاہدے نے ملک سے غیر ملکی افواج کے مکمل انخلاء کی راہ ہموار کی۔ انہوں نے خلیل زاد کو 'کرپٹ' اور 'نا اہل' بھی قرار دیا۔ سابق صدر اشرف غنی 15 اگست 2021 کو طالبان کے افغان دارالحکومت میں داخل ہونے کے بعد کابل سے فرار ہو گئے تھے اور اب وہ متحدہ عرب امارات میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ان کے جانے سے طالبان کے لیے صدارتی محل پر قبضہ کرنے کی راہ ہموار ہوگئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں:

Afghanistan:کابل چھوڑنے کے بعد اشرف غنی کا پہلا ویڈیو، کہا افغانستان واپس آؤنگا

Ashraf Ghani on Fleeing Kabul: 'کابل چھوڑنے کے علاوہ میرے پاس کوئی راستہ نہیں بچا تھا'

اشرف غنی نے موت تک لڑنے کا وعدہ کیا لیکن افغانستان سے فرار ہوگئے: امریکی وزیر خارجہ

اشرف غنی نے بعد میں افغان شہریوں سے معافی مانگتے ہوئے کہا کہ انہیں نے ملک میں خونریزی سے بچنے کے لیے راہ فرار اختیار کرنا پڑا۔ تاہم سیاسی سمجھوتے تک پہنچنے سے پہلے ہی فرار ہونے پر قومی اور بین الاقوامی سطح پر اشرف غنی کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ اپنی حکومت گرنے سے پہلے غنی نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ اپنی موت تک طالبان کے خلاف کھڑے رہیں گے لیکن اب وہ کہتے ہیں کہ جب کابل گرا تو ان کے پاس ایگزیکٹو پاور نہیں تھی۔

غنی نے این بی این کو بتایا کہ وہ ملک چھوڑنے والے آخری شخص تھے اور انہوں نے ڈاکٹر نجیب کے تلخ تجربے کو دہرانے سے بچنے کے لیے ایسا کیا۔ وہ افغانستان کے سابق صدر محمد نجیب اللہ کا حوالہ دے رہے تھے جنہیں 1996 میں طالبان نے پہلی بار کابل پر قبضہ کرتے ہوئے ہلاک کر دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے سابق وزیر دفاع ان کے سامنے سے بھاگ گئے اور کابل میں امریکی سفارت خانے نے پہلے ہی اپنے عملے اور افغان ایلیٹ فورسز کو نکالنا شروع کر دیا تھا۔ غنی نے اے بی این کو بتایا کہ ان کے انٹیلی جنس چیف نے کہا تھا کہ افغان فورسز اس وقت لڑنے کے قابل نہیں تھیں۔

کابل: افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی نے اپنی حکومت کے گرنے کے تقریباً ایک سال بعد ایک انٹرویو میں انہوں نے جنگ زدہ ملک پر طالبان کے قبضے کے لیے امریکا، کابل کے سیاست دانوں اور دیگر کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ بدھ کے روز نئے قائم کردہ میڈیا آؤٹ لیٹ افغان براڈکاسٹنگ نیٹ ورک (ABN) کے ساتھ اپنے پہلے ٹیلی ویژن انٹرویو میں، سابق افغان صدر اشرف غنی نے خاص طور پر افغان امن کے لیے سابق امریکی سفیر زلمے خلیل زاد کے ساتھ ساتھ کئی ممتاز افغان سیاست دانوں کو اس کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔

اشرف غنی انٹرویو کے دروان زلمے خلیل زاد پر سب سے زیادہ ناراض نظر آئے جنہوں نے دوحہ میں طالبان کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس معاہدے نے ملک سے غیر ملکی افواج کے مکمل انخلاء کی راہ ہموار کی۔ انہوں نے خلیل زاد کو 'کرپٹ' اور 'نا اہل' بھی قرار دیا۔ سابق صدر اشرف غنی 15 اگست 2021 کو طالبان کے افغان دارالحکومت میں داخل ہونے کے بعد کابل سے فرار ہو گئے تھے اور اب وہ متحدہ عرب امارات میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ان کے جانے سے طالبان کے لیے صدارتی محل پر قبضہ کرنے کی راہ ہموار ہوگئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں:

Afghanistan:کابل چھوڑنے کے بعد اشرف غنی کا پہلا ویڈیو، کہا افغانستان واپس آؤنگا

Ashraf Ghani on Fleeing Kabul: 'کابل چھوڑنے کے علاوہ میرے پاس کوئی راستہ نہیں بچا تھا'

اشرف غنی نے موت تک لڑنے کا وعدہ کیا لیکن افغانستان سے فرار ہوگئے: امریکی وزیر خارجہ

اشرف غنی نے بعد میں افغان شہریوں سے معافی مانگتے ہوئے کہا کہ انہیں نے ملک میں خونریزی سے بچنے کے لیے راہ فرار اختیار کرنا پڑا۔ تاہم سیاسی سمجھوتے تک پہنچنے سے پہلے ہی فرار ہونے پر قومی اور بین الاقوامی سطح پر اشرف غنی کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ اپنی حکومت گرنے سے پہلے غنی نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ اپنی موت تک طالبان کے خلاف کھڑے رہیں گے لیکن اب وہ کہتے ہیں کہ جب کابل گرا تو ان کے پاس ایگزیکٹو پاور نہیں تھی۔

غنی نے این بی این کو بتایا کہ وہ ملک چھوڑنے والے آخری شخص تھے اور انہوں نے ڈاکٹر نجیب کے تلخ تجربے کو دہرانے سے بچنے کے لیے ایسا کیا۔ وہ افغانستان کے سابق صدر محمد نجیب اللہ کا حوالہ دے رہے تھے جنہیں 1996 میں طالبان نے پہلی بار کابل پر قبضہ کرتے ہوئے ہلاک کر دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے سابق وزیر دفاع ان کے سامنے سے بھاگ گئے اور کابل میں امریکی سفارت خانے نے پہلے ہی اپنے عملے اور افغان ایلیٹ فورسز کو نکالنا شروع کر دیا تھا۔ غنی نے اے بی این کو بتایا کہ ان کے انٹیلی جنس چیف نے کہا تھا کہ افغان فورسز اس وقت لڑنے کے قابل نہیں تھیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.