غزہ: ایک اسرائیلی فضائی حملے میں اتوار کے روز جنوبی غزہ میں دو فلسطینی صحافی ہلاک ہوگئے۔ جن میں الجزیرہ کے کے بیورو چیف وائل الدحدوح کا بیٹا بھی شامل ہے۔ صحافی وائل نے اس سے پہلے اکتوبر میں اپنی بیوی، دو دیگر بچوں اور ایک پوتے کو کھو دیا ہے۔ اس تکلیف کے باوجود دحدوح نے اسرائیل اور حماس کے درمیان لڑائی کے بارے میں رپورٹنگ جاری رکھی ہوئی ہے۔
یہاں تک کہ انھوں نے اپنے ہی خاندان کے پانچ افراد کو اپنی آنکھوں کے سامنے ہلاک ہوتے دیکھا ہے، جس کی وجہ سے وہ فلسطینی صحافیوں کو درپیش جانی خطرات کی علامت بن گئے ہیں۔ کیوںکہ غزہ میں سو سے زائد صحافی تنازع کی کوریج کرتے ہوئے مارے جا چکے ہیں۔
حمزہ دحدوح بھی الجزیرہ کے لیے کام کر رہے تھے، اس کے علاوہ ایک آزاد صحافی مصطفی کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ خان یونس سے جنوبی قصبے رفح جا رہے تھے۔ ان صحافیوں کی ہلاکت کے بعد اسرائیلی فوج کی جانب سے فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔
الجزیرہ کے 53 سالہ وائل دحدوح غزہ جنگ کی 24 گھنٹے کی کوریج اور خطے بھر میں عربی بولنے والے لاکھوں ناظرین کے لیے کا چہرہ رہا ہے۔ فلسطینی علاقے میں اپنے بیٹے کی تدفین کے بعد الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے دحدوح نے جنگ کی رپورٹنگ جاری رکھنے کا عزم کیا۔
واضح رہے کہ کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کا کہنا ہے کہ 7 اکتوبر سے غزہ میں جنگ شروع ہونے اور لبنان کے ساتھ اسرائیل کی سرحد پر لڑائی میں اضافے کے بعد سے اب تک کم از کم 70 فلسطینی صحافیوں کے ساتھ ساتھ چار اسرائیلی اور تین لبنانی رپورٹر مارے جا چکے ہیں۔ غزہ میں وزارت صحت کے مطابق جنگ میں اب تک 22,800 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور نابالغ ہیں۔
یہ بھی پڑھیں