عراق کے پارلیمانی انتخابات لوگوں کو متاثر کرنے میں ناکام رہے کیونکہ ابتدائی نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ اتوار کے پارلیمانی انتخابات میں سب سے کم ٹرن آؤٹ 41 فیصد رہا۔ یہ 2018 کے انتخابات میں 44 فیصد سے کم ہے۔
عراقی الیکشن کمیشن کے مطابق اتوار کے انتخابات میں تقریبا 41 فیصد رائے دہندگان نے اپنا حق رائے دہی کا استعمال کیا۔
یہ اعداد و شمار پانچ انتخابات میں سب سے کم ٹرن آؤٹ کی نشاندہی کرتا ہے جب 2003 میں طویل عرصے سے حکمران صدام حسین کو معزول کیا گیا تھا۔
اس الیکشن میں 329 نشستوں کے لیے کل 3،449 امیدوار میدان میں ہیں۔2003 میں امریکی قیادت میں صدام حسین کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے عراق میں یہ چھٹا انتخابات تھا۔
عراقی حکام، غیر ملکی سفارت کاروں اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس طرح کا نتیجہ عراق یا وسیع مشرق وسطیٰ میں طاقت کے توازن کو ڈرامائی طور پر تبدیل نہیں کرے گا۔ لیکن عراقیوں کے لیے اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ الصدر- ایک سابق مسلح گروہ کا رہنما اور مذہبی قدامت پسند حکومت پر اپنا اثر و رسوخ بڑھا سکتا ہے۔
ووٹنگ کے 11 گھنٹوں کے بعد پول گزشتہ شام 6 بجے (15:00 GMT) بند ہوگئے۔ عراق کے انتخابات کی نگرانی کرنے والے آزاد ادارے کے مطابق اگلے 48 گھنٹوں کے اندر نتائج متوقع ہیں۔لیکن حکومت بنانے کا کام اور وزیراعظم کے انتخاب کے لیے مذاکرات ہفتوں یا مہینوں تک جاری رہ سکتے ہیں۔
انتخابات کی نگرانی کرنے والی آزاد تنظیم نے پیر کو کہا کہ عراق نے اتوار کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں ریکارڈ کم ٹرن آؤٹ دیکھا ہے جو کہ انتخابات پر وسیع عدم اطمینان اور اعتماد کی نشاندہی کرتے ہیں۔
یورپی یونین سے تعلق رکھنے والے عراق کے چیف الیکشن مبصر کا کہنا ہے کہ کم ووٹر ٹرن آؤٹ ‘ایک واضح سیاسی اشارہ ہے’ انہیں امید ہے کہ سیاستدان اس سے سبق حاصل کرینگے۔
دراصل یورپی یونین اور اقوام متحدہ کی طرف سے درجنوں انتخابی مبصرین کو ووٹ کی نگرانی کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔
وہیں، عراق کے شمالی صوبہ کرکوک میں شدت پسند گروپ اسلامک اسٹیٹ کے ارکان نے ایک پولنگ اسٹیشن پر حملہ کرنے کی بھی خبر موصول ہوئی تھی جس میں ایک پولیس افسر زخمی بھی ہوگیا۔
بغداد سے خطاب کرتے ہوئے ایک آزاد عراقی سیاستدان اور حکومت کے سابق معاشی مشیر، مزین العشاقر نے کہا کہ اتوار کے ووٹوں میں کم ٹرن آؤٹ منتخب حکومت کی قانونی حیثیت کو متاثر کرے گا۔ پھر بھی ہمیں نتائج کا احترام کرنا پڑے گا، لوگ 18 سالوں سے انتخابات میں جا رہے ہیں لیکن وہ کوئی تبدیلی نہیں دیکھ سکتے اور لوگ تنگ آ رہے ہیں۔
بغداد میں ہائی سکول کے استاد عبدالامیر حسن السعدی نے کہا کہ انھوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا کیونکہ بغداد میں مظاہروں کے دوران پولیس کی پرتشدد کاراوئی سے میں نے اپنے 17 سالہ بیٹے حسین کو کھو دیا۔ میں قاتلوں اور کرپٹ سیاستدانوں کو ووٹ نہیں دوں گا کیونکہ میرے اور اس کی ماں کے اندر جو زخم ہم نے اپنے لڑکے کو کھونے کے بعد برداشت کیا وہ اب بھی خون بہہ رہا ہے۔
واضح رہے کہ حکومت کے خلاف کرپشن اور بدانتظامی کی وجہ سے نوجوانوں کی قیادت والی عوامی بغاوت اور احتجاج کے باعث عراق میں قبل از وقت انتخابات منعقد کرائے گئے۔
2019 کے آخر اور 2020 کے اوائل میں حکومت کے خلاف ہزاروں لوگوں نے احتجاج کیا جس پر سیکورٹی فورسز نے زندہ گولہ بارود اور آنسو گیس سے فائرنگ کی اور صرف چند ماہ کے اندر 600 سے زائد افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے۔ احتجاج کرنے والے تبدیلی اور نئے انتخابات کا مطالبہ کر رہے تھے۔
اگرچہ حکام نے قبل از وقت انتخابات کرانے کے مطالبے کو تسلیم تو کرلیا اور انتخابات اتوار کو منعقد بھی ہوئے لیکن احتجاج کے دوران ہلاکتوں کی تعداد اور بھاری ہاتھوں سے کریک ڈاؤن نیز ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ نے بہت سارے مظاہرین کو بعد میں ووٹ کے بائیکاٹ کا مطالبہ کرنے لگے۔