دوسری جنگ عظیم کے بعد سنہ 1995 میں سربیا کی فوج نے 6 ہزار سے زائد بوسنیائی مسلمانوں کو ہلاک کر دیا تھا۔
نسل کشی کا شکار ہونے والے مزید 33 افراد کی باقیات کو دفن کیا گیا ہے۔ ہلاک ہونے والوں کی شناخت ان کے ڈی این اے کے ذریعے ہوئی ہے۔
عدیلہ اپنے بھائی کے باقیات دفن کرنے آئی تھیں ان کا کہنا ہے کہ انہیں اپنے بھائی کی محض کچھ ہڈیاں ہی ملی ہیں، جن کا وزن 100 گرام سے زیادہ نہیں ہے۔ کوئی ماں اپنے بچے کو بغیر سر کے پیدا نہیں کرتی ہے لیکن آج ٹوٹے پھوٹے ٹکڑوں کو دفن کر رہے ہیں۔
مہلوکین کی شناخت کے بعد ان کے اہل خانہ کے زخم دوبارہ ہرے ہوگئے ہیں۔ یہاں آنے والے کسی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ سبھی ایک ہی طرح کے درد کے ساتھ گذر رہے ہیں۔
اپنے عزیزوں کی باقیات کو دفن کرنے کے لیے یکجا ہوئےمہلوکین کے اہل خانہ حادثے کے 21 برسوں کے بعد بھی اپنی چیخ اور آنسو نہیں روک سکے۔
اس موقع پر اجتماعی نماز جنازہ ادا کی گئی، جس میں 10 ہزار سے زائد افراد نے شرکت کی۔
متعدد تابوت اجنبی افراد کے ہاتھوں قبروں میں اتارے گئے۔ کیوںکہ گھر کے مردوں کو قتل کیا گیا تھا، لہذا خواتین کا قبروں تک آکر ان کی لاشوں کو اتارنا ممکن نہیں تھا۔
واضح رہے کہ 11 جولائی سنہ 1995 میں سربیائی فوج نے لوگوں کو ہلاک کرنے کے بعد لاشوں کو بڑے بڑے گڑھوں میں اجتمائی طور پر ڈال دیا تھا۔
رواں برس اقوام متحدہ کے خصوصی ٹریبونل نے سابق بوسنیائی سرب رہنما رادووان کاراجیچ کو 'سربرینیکا' حادثے سے متعلق نسل کشی کا مرتکب قرار دے کر 40 برس قید کی سزا سنائی ہے۔