انقرہ (ترکی)نے پہلی بار سنہ 2016 میں شامی تنازعہ میں بہ طور ایک فریق داخل ہوا تھا۔ ترکی اور روسی حمایت یافتہ شامی افواج کے مابین یہ سب سے سنگین بڑھاو تھا، جس نے لاکھوں شامی شہریوں کے ساتھ بڑی جنگ کا خدشہ پیدا کیا تھا۔
ترک حکومتی ذرائع کے مطابق اردگان اور ان کے روسی ہم منصب ولادی میر پوتن نے فون پر اتفاق رائے سے شمالی شام میں انسانیت سوزی سے بچنے کے اقدامات پر اتفاق کیا۔
ترکی صدر رجب طیب اردگان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ 'دونوں رہنماؤں نے ادلیب خطے میں پائے جانے والے ایک بڑے انسانی المیے کو روکنے کے لیے بغیر کسی تاخیر کے اضافی اقدامات پر اتفاق کیا'۔
نیٹو کے سفیروں نے نیٹو کے رکن ترکی کی درخواست پر ہنگامی بات چیت کی۔ ترکی کے 28 حلیفوں نے بھی اموات پر اظہار تعزیت کیا اور دیگر ممالک سے تعزیت کی اپیل کی، لیکن نیٹو کی طرف سے کوئی اضافی مدد کی پیش کش نہیں کی گئی۔
شام پر فضائی نگرانی فراہم کرنے کے علاوہ اس تنازعہ میں نیٹو کا کوئی براہ راست کردار نہیں ہے، لیکن اس کے ارکان میں ترکی کی کارروائیوں پر اختلاف رائے ہے۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق یورپی اتحادیوں کو مہاجرین کی اس نئی لہر پر تشویش ہے۔
ترکی پہلے ہی 35 لاکھ سے زائد زیادہ شامی مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے۔ وہ طویل عرصے سے دھمکی دے رہا ہے کہ لاکھوں افراد کے یورپ داخلہ کے لئے دروازے کھول دیں جب تک کہ بین الاقوامی مدد فراہم نہیں کی جاتی۔
یونان اور بلغاریہ نے آمد کی تیاریوں میں ترکی کے ساتھ اپنی سرحدوں پر سیکیورٹی بڑھا دی۔
یہ بحران شامی حکومت کی یلغار سے شروع ہوا ہے جس کا آغاز یکم دسمبر کو شام میں حزب اختلاف کے زیر اثر آخری گڑھ ، شمال مغربی شام میں ادلیب صوبے کو دوبارہ حاصل کرنے کے لئے روسی فوج کی مدد سے ہوا تھا۔
اطلاعات کے مطابق ترکی جو شام کی حزب اختلاف کا مرکزی حامی ہے، اس مہینے میں 54 ہلاکتوں سمیت 54 فوجیوں کو کھو چکا ہے۔