اسکاٹ لینڈ میں طوفانی بارش اور تیز ہواؤں کے باوجود ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے گلاسگو کی سڑکوں پر مارچ کیا اور اسکاٹ لینڈ کی آزادی پر دوسرا ریفرنڈم کرانے کا مطالبہ کیا۔
آئندہ 31 جنوری کو بریگزٹ کے سبب اسکاٹ لینڈ میں آزادی کے حامیوں کا احتجاج ایک بار پھر زور پکڑتا جا رہا ہے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق تقریبا 80 ہزار مظاہرین نے اس مارچ میں حصہ لیا، اور 'کیلونگرو' پارک میں جمع ہوکر اسکاٹ لینڈ کے سب سے بڑے شہر کے وسط میں واقع 'گلاسگو گرین پارک' تک مارچ نکالا۔
کچھ لوگوں نے 'سالٹائر اسکاٹ لینڈ' کا قومی پرچم اٹھا رکھا تھا، جب کہ فلسطین، انگلینڈ اور ہسپانوی علاقے کیٹالونیا کے جھنڈے بھی اس مارچ میں نظر آئے، جو بڑے پیمانے پر ملک بھر سے لوگ آئے تھے۔
بینرز میں لکھا تھا کہ 'ہم انگریزی مخالف نہیں ہیں، ہم اسکاٹش کے حامی ہیں'۔ آزادی کے حامیوں کا مارچ 'آل انڈر ون بینر' نے انعقاد کیا تھا، جو سکاٹش کی آزادی کا ایک پریشر گروپ ہے، جس کا قیام سنہ 2014 میں ہوا تھا۔
مذکورہ پریشر گروپ نے رواں برس کے لیے 8 پروگرامز کا منصوبہ بنایا ہے، ان میں سے یہ پہلا پروگرام ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق، اسکاٹ لینڈ کے اعلان آزادی پر دستخط کرنے کی 700 ویں سالگرہ کے موقع پر اگلا پروگرام اپریل میں ایک دوسرے شہر اربروتھ میں منعقد کیا جائے گا۔
اسکاٹ لینڈ نے اس سے قبل ہی سنہ 2014 میں آزادی کے لیے ریفرنڈم کرایا تھا، لیکن معمولی فرق کے ساتھ آزادی ممکن نہیں ہو سکی تھی۔ کیونکہ ریفرنڈم میں 55 فیصد لوگوں نے برطانیہ میں ہی رہنے کا انتخاب کیا تھا۔
اس کے باوجود اسکاٹ لینڈ میں برطانیہ کے حالیہ عام انتخابات کے دوران 'سکاٹش نیشنل پارٹی' نے 45 فیصد ووٹ حاصل کیے۔ اس طرح ہاؤس آف کامنز میں اسکاٹش کی 59 نشستوں میں سے 48 نشستیں جیتنے کے بعد، پارٹی کے رہنما نکولا اسٹرجن نے ایک اور ریفرنڈم کا خیال سامنے لا کھڑا کیا ہے۔
عام انتخابات کے ایک ہفتے بعد تقریر کرتے ہوئے اسٹرجن نے کہا تھا کہ ان کی حکومت نے ایک واضح جمہوری مینڈیٹ پیش کیا ہے، کہ وہ لوگوں کو ریفرنڈم کا موقع فراہم کرے، اور برطانیہ کی جمہوری حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ اسے تسلیم کرے۔