نئی دہلی کی جانب سے کشمیر اور شہریت ترمیمی ایکٹ پر سفارتی اقدامات کے باوجود بین الاقوامی سطح پر بھارت کے لیے پریشانیوں کا سلسلہ بڑھتا جارہا ہے۔بھارتی حکومت کا مؤقف یہ ہے کہ یہ دونوں اسکے اندرونی معاملات ہیں لیکن اسکے باوجود یوروپی پارلیمنٹ میں بھارتی حکومت کے طرز عمل پر سوال اٹھائے گئے ہیں۔ یورپی پارلیمان میں قرار داد کا زیر بحث آنا اس پس منظر میں کافی دلچسپ ہے کہ تین ماہ قبل دائیں بازو کے 22 اراکین پارلیمنٹ کا ایک وفد کشمیر کے نجی دورے پر گیا تھا اور یہ دورہ تنازعات کا شکار بھی ہوا تھا۔
یوروپی پارلیمنٹ( ایم ای پی) کے کل 751 ممبروں سے 626 کی بھاری اکثریت کے ذریعہ کشمیر اور سی اے اے سے متعلق چھ مختلف مذمتی قراردادیں داخل کی گئی ہیں۔اس ہفتے برسلز میں چھ بڑی سیاسی جماعتوں کے ایم ای پیز کے ذریعہ تجویز کردہ مسودہ کو یوروپی پارلیمنٹ کے مکمل اجلاس کے دوران پیش کیا جائے گا۔ان پر 29 جنوری( مقامی وقت کے مطابق شام 6 بجے) بحث کی جائے گی اور اگلے دن 30 جنوری کو ووٹ ڈالیں گے۔
اس معاملے پر وزارت خارجہ نے سرکاری طور پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا ہے۔تاہم سرکاری ذرائع امید کررہے ہیں کہ برسلز کو احساس ہوگا کہ سی اے اے کو پارلیمانی عمل کے ذریعے قانون سازی کی گئی ہے۔
وہیں سرکاری ذرائع نے بتایا ہے کہ یورپی یونین کی پارلیمنٹ کے کچھ ارکان سی اے اے کے بارے میں مسودہ پیش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ سی اے اے ایک ایسا معاملہ ہے جو مکمل طور پر بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔مزید یہ بھی کہا گیا کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں عوامی بحث و مباحثے کے بعد سی اے اے کو قانون سازی عمل اور جمہوری طریقے سے منظور کیا گیا ہے۔
باضابطہ طور پر یورپی کمیشن کے نائب صدر و اعلیٰ نمائندے برائے یونین برائے خارجہ امور اور سلامتی پالیسی جوسیپ بوریل بحث سے پہلے بھارت کی شہریت( ترمیمی) ایکٹ 2019 کے بارے میں بیان دیں اور اس کے بعد قرارداد پر ووٹنگ کی جائے گی۔
اس سے قبل ستمبر 2019 میں بھی ، یوروپی یونین کی پارلیمنٹ نے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے اور جموں و کشمیر کی تنظیم نو کے بعد ہونے والی پیشرفت پر تبادلہ خیال کیا تھا۔ لیکن تب بات چیت کسی ووٹ کے ساتھ ختم نہیں ہوئی تھی۔
بھارت کے سرکاری ذرائع نے دلیل دیتے ہوئے کہا کہ ہر معاشرہ قدرتی پن کی راہ پر گامزن ہے اور ساتھ میں سیاق و سباق اور معیار دونوں پر غور کرتا ہے۔یہ کوئی امتیازی سلوک نہیں ہے۔اصل میں یوروپی معاشروں نے بھی اس طرز عمل پر عمل کیا ہے۔ہم امید کرتے ہیں کہ مسودے کے کفیل اور حمایتی ہمارے ساتھ تبادلہ خیال کرلیں تاکہ وہ اس مسودے کو آگے بڑھانے سے قبل حقائق کا مکمل اور درست جائزہ لے سکیں۔
اس قرار داد میں بھارت کی طرف سے بین الاقوامی اصولوں اور انسانی حقوق سے متعلق وعدوں کی مبینہ خلاف ورزی سے متعلق متعدد معاملات کا حوالہ دیا گیا ہے۔اس فہرست میں جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے بعد سیاسی نظربندوں اور ترسیلی مواصلات پر عائد کی گئی پابندیوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔
اس میں اترپردیش میں سی اے اے کے مخالفت کررہے مظاہرین پر پولیس فائرنگ کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ساتھ میں 'نظر بندی کے دوران ہورہے تشدد' ، این آر سی کی وجہ سے دنیا میں پیدا ہونے والے اضطراب اور اسکے ردعمل میں پیدا ہوئی مزاحمتی تحریک جیسے موضوعات پر بھی بحث طلب کی گئی ہے۔
یوروپی یونین کا یہ قدم اس ماہ کے اوائل میں نئی دہلی میں رئیسینا ڈائیلاگ کانفرنس کے موقع پر یوروپی یونین کے وزیر خارجہ جو سیپ بوریل ، وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر خارجہ جے شنکر کے ملاقات کے بعد سامنے آئی ہے۔
ان پیش کردہ قرار دادوں میں ایم ای پی کے گروپوں نے پورے بھارت میں سیاسی اقدامات کی مذمت کی ہے جس کےنتیجے میں سی اے اے مخالف مظاہرین کو اپنی جان گنوانی پڑی ہے۔انہوں نے مودی حکومت سے مظاہرین کے ساتھ تبادلہ خیال کرنے اور جموں و کشمیر میں عائد پابندیوں کو ختم کرنے کےساتھ ساتھ مساوات اور عدم تفریق کے جذبے اور بین الاقوامی ذمہ داریوں کی روشنی میں سی اے اے پر نظر ثانی کا مطالبہ کیا ہے۔
بھارتی حکومت کے ذرائع نے زور دیتے ہوئے کہا کہ جمہوری ممالک کی حیثیت سے یوروپی یونین کو چاہیے کہ وہ ان قانون ساز اداروں کے خلاف کوئی ایکشن نہ لے جو جمہوری انداز سے منتخب ہوئے ہوں اور نہ ہی ان کے حقوق اور اتھورٹی پر سوال اٹھائے۔
یہ معاملہ یورپی یونین اور بھارت کے دیرینہ تعلقات پر اثر انداز ہوسکتا ہے جس کے تحت رواں برس 13 مارچ کو وزیر اعظم مودی یوروپی یونین اور بھارت کے سربراہ اجلاس میں شرکت کیلئے برسلز جانے کا پروگرام طے ہے۔ وزیر اعظم مودی کے برسلز میں موجودگی کے دوران ان قراردادوں میں سے ایک پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
اس سے قبل نئی دہلی کی جانب سے امریکہ، ناروے اور جنوبی کوریا سمیت بعض غیر ملکی سفیروں کو جموں و کشمیر کا دورہ کرایا گیا تھا۔ اس دورے کا حصہ یوروپی یونین کے سفیر نہیں تھے۔ایم ای اے نے ان خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ یوروپی یونین کے سفیروں نے اس دورے کا حصہ بننے سے انکار کردیا کیونکہ انہیں سیاسی رہنماؤں اور عام شہریوں سے ملاقات کرنے کی آزادنہ رسائی کی یقین دہانی نہیں دی جارہی تھی۔
وزارت خارجہ نے کہا کہ یورپی یونین کے نمائندوں کو تاریخ کے تعین سے متعلق اشکالات تھے اور یورپی یونین کے ایلچی ایک ساتھ سفر کرنا چاہتے ہیں لہذا وہ کسی دوسری تاریخ پر جموں و کشمیر جانے کے امکانات تلاش کررہے ہیں۔