ETV Bharat / international

برطانیہ - یورپی یونین کے مابین تجارتی معاہدہ بہتر ہونے کا امکان

برطانیہ اور یورپی یونین کے نمائندے برسلز میں برطانیہ کی یورپی یونین سے الگ ہونے کی آخری حتمی تاریخ سے پہلے تجارتی معاہدے پر اتفاق رائے کے لیے مذاکرات کر رہے ہیں۔

author img

By

Published : Dec 6, 2020, 10:39 PM IST

resume trade talks
برطانیہ - یورپی یونین کے مابین تجارتی معاہدہ بہتر ہونے کا امکان

برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن اور یورپی کمیشن کی صدر اُرسلا وان دیر لیین نے ہفتے کو اپنے مذاکرات کاروں سے بات چیت دوبارہ شروع کرنے کو کہا تھا۔

خیال رہے کہ برطانیہ باضابطہ طور پر رواں سال 31 جنوری کو تقریباً نصف صدی بعد یورپی یونین سے الگ ہو گیا تھا۔ تاہم تجارت، بارڈر سیکیورٹی، امیگریشن اور دیگر معاملات طے کرنے کے لیے 31 دسمبر 2020 تک کی ڈیڈ لائن مقرر کی گئی تھی۔ برطانیہ کے یورپی یونین سے علیحدہ ہونے کا عمل اس سال کے آخری دن 31 دسمبر کو مکمل ہو جائے گا۔

وزیر اعظم جانسن اور یورپی کمیشنر کی صدر نے ٹیلی فون پر بات چیت کے بعد ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ اگر حکومتی عمل داری، ماہی گیری اور یکساں مقابلے کے اصولوں پر اختلافات ختم نہ ہوئے تو تجارتی معاہدہ سود مند نہیں ہو گا۔ ایک برطانوی مذاکرات نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کو بتایا کہ یہ مذاکرات کا فیصلہ کن دُور ہو گا۔

رطانیہ کی باضابطہ طور پر یورپی یونین سے 31 دسمبر کو علیحدگی سے قبل یورپ اور برطانیہ پر مشتمل دنیا کے سب سے بڑے تجارتی بلاک کے درمیان مذاکرات بے نتیجہ رہے ہیں۔ برطانیہ کے چیف مذاکرات کار ڈیوڈ فراسٹ نے اتوار کو برسلز پہنچنے پر ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ اُن کی ٹیم معاہدے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گی۔ تاہم مذاکرات کا باضابطہ آغاز پیر سے ہو گا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان کوئی تجارتی معاہدہ نہ ہوا تو کرونا کے دور میں یورپ اور برطانیہ کی معاشی مشکلات مزید بڑھ سکتی ہے۔ تاہم بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر تجارتی معاہدہ ہو بھی جاتا ہے تو تجارتی سامان کی نقل و حمل اور لوگوں کی آمدورفت میں خلل پڑ سکتا ہے۔ کیوں کہ برطانیہ 27 رُکنی یورپی یونین کی سنگل مارکیٹ اور کسٹم یونین سے الگ ہو جائے گا۔

برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی سے متعلق 2016 میں ہونے والے ریفرنڈم میں 52 فی صد عوام نے علیحدگی کے حق میں رائے دی تھی۔ جس پر کنزرویٹو پارٹی سے تعلق رکھنے والے اُس وقت کے وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون نے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا کیوں کہ وہ خود یورپی یونین میں رہنے کے حامی تھے۔

بعد ازاں کنزرویٹو پارٹی کی رکن تھریسامے نے وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالا اور بریگزٹ کے معاملے پر ناکامی کی صورت میں انہوں نے بھی عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ جس کے بعد بورس جانسن نے وزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھالا تھا۔ یورپی یونین سے علیحدگی کے لیے اسمبلی میں مطلوبہ تعداد حاصل کرنے کے لیے بورس جانسن نے نئے انتخابات کا اعلان کیا اور دسمبر 2019 میں ہونے والے انتخابات میں کنزرویٹو پارٹی نے 365 نشستیں حاصل کیں۔

مزید پڑھیں:

'چین نے خط افلاس کے خاتمے کو وقت مقررہ کے مطابق پورا کیا'


اس سے قبل کنزرویٹو پارٹی کے پاس 650 کے ایوان میں 317 نشستیں تھی جب کہ سادہ اکثریت کے لیے اسے 326 ارکان کی ضرورت تھی۔ بورس جانسن نے انتخابات میں کامیابی کے بعد اسمبلی سے یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ حاصل کیے اور 31 جنوری کو باضابطہ طور پر یونین سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا۔

برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن اور یورپی کمیشن کی صدر اُرسلا وان دیر لیین نے ہفتے کو اپنے مذاکرات کاروں سے بات چیت دوبارہ شروع کرنے کو کہا تھا۔

خیال رہے کہ برطانیہ باضابطہ طور پر رواں سال 31 جنوری کو تقریباً نصف صدی بعد یورپی یونین سے الگ ہو گیا تھا۔ تاہم تجارت، بارڈر سیکیورٹی، امیگریشن اور دیگر معاملات طے کرنے کے لیے 31 دسمبر 2020 تک کی ڈیڈ لائن مقرر کی گئی تھی۔ برطانیہ کے یورپی یونین سے علیحدہ ہونے کا عمل اس سال کے آخری دن 31 دسمبر کو مکمل ہو جائے گا۔

وزیر اعظم جانسن اور یورپی کمیشنر کی صدر نے ٹیلی فون پر بات چیت کے بعد ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ اگر حکومتی عمل داری، ماہی گیری اور یکساں مقابلے کے اصولوں پر اختلافات ختم نہ ہوئے تو تجارتی معاہدہ سود مند نہیں ہو گا۔ ایک برطانوی مذاکرات نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کو بتایا کہ یہ مذاکرات کا فیصلہ کن دُور ہو گا۔

رطانیہ کی باضابطہ طور پر یورپی یونین سے 31 دسمبر کو علیحدگی سے قبل یورپ اور برطانیہ پر مشتمل دنیا کے سب سے بڑے تجارتی بلاک کے درمیان مذاکرات بے نتیجہ رہے ہیں۔ برطانیہ کے چیف مذاکرات کار ڈیوڈ فراسٹ نے اتوار کو برسلز پہنچنے پر ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ اُن کی ٹیم معاہدے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گی۔ تاہم مذاکرات کا باضابطہ آغاز پیر سے ہو گا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان کوئی تجارتی معاہدہ نہ ہوا تو کرونا کے دور میں یورپ اور برطانیہ کی معاشی مشکلات مزید بڑھ سکتی ہے۔ تاہم بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر تجارتی معاہدہ ہو بھی جاتا ہے تو تجارتی سامان کی نقل و حمل اور لوگوں کی آمدورفت میں خلل پڑ سکتا ہے۔ کیوں کہ برطانیہ 27 رُکنی یورپی یونین کی سنگل مارکیٹ اور کسٹم یونین سے الگ ہو جائے گا۔

برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی سے متعلق 2016 میں ہونے والے ریفرنڈم میں 52 فی صد عوام نے علیحدگی کے حق میں رائے دی تھی۔ جس پر کنزرویٹو پارٹی سے تعلق رکھنے والے اُس وقت کے وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون نے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا کیوں کہ وہ خود یورپی یونین میں رہنے کے حامی تھے۔

بعد ازاں کنزرویٹو پارٹی کی رکن تھریسامے نے وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالا اور بریگزٹ کے معاملے پر ناکامی کی صورت میں انہوں نے بھی عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ جس کے بعد بورس جانسن نے وزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھالا تھا۔ یورپی یونین سے علیحدگی کے لیے اسمبلی میں مطلوبہ تعداد حاصل کرنے کے لیے بورس جانسن نے نئے انتخابات کا اعلان کیا اور دسمبر 2019 میں ہونے والے انتخابات میں کنزرویٹو پارٹی نے 365 نشستیں حاصل کیں۔

مزید پڑھیں:

'چین نے خط افلاس کے خاتمے کو وقت مقررہ کے مطابق پورا کیا'


اس سے قبل کنزرویٹو پارٹی کے پاس 650 کے ایوان میں 317 نشستیں تھی جب کہ سادہ اکثریت کے لیے اسے 326 ارکان کی ضرورت تھی۔ بورس جانسن نے انتخابات میں کامیابی کے بعد اسمبلی سے یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ حاصل کیے اور 31 جنوری کو باضابطہ طور پر یونین سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.