افغانستان میں اپنی کارروائی جاری رکھتے ہوئے طالبان نے افغانستان کے صوبے بدخشاں کے دار الحکومت فیض آباد پر قبضہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ اسی کے ساتھ جمعہ سے اب تک قبضہ کیے گئے صوبائی دارالحکومتوں کی تعداد 9 ہوگئی ہے۔
جنوب مغربی صوبے کا شہر فراہ اور شمالی صوبہ بغلان کا صوبائی دارالحکومت پل خمری دونوں منگل کو مسلح گروہ طالبان کے قبضے میں آگئے۔ گزشتہ روز سہ پہر طالبان، سیکورٹی فورسز کے ساتھ مختصر لڑائی کے بعد فراہ شہر میں داخل ہوئے۔ انہوں نے گورنر کے دفتر اور پولیس ہیڈ کوارٹر پر بھی قبضہ کرلیا ہے۔ پارلیمنٹیرین عبدالناصر فراہی کے مطابق طالبان نے صوبے کی مرکزی جیل پر بھی قبضہ کرلیا ہے۔
فراہ اب افغانستان کے جنوب مغرب میں دوسرا صوبائی شہر ہے جس پر طالبان کا قبضہ ہوا ہے۔ جمعہ کو طالبان نے پڑوسی صوبہ نیمروز پر بھی قبضہ کرلیا تھا۔ منگل کے روز طالبان نے صوبہ بغلان کے دارالحکومت پل خمری جو کابل سے تقریباً 200 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے قبضہ کرلیا۔
پل خمری کا سقوط طالبان کے لیے ایک اہم پیش رفت سمجھا جارہا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ قبضہ کابل کے بہت قریب لاتا ہے اور یہ حکومت کے لیے تشویش کا باعث ہے۔
طالبان نے ایک ہفتے سے بھی کم عرصے میں ملک کے 34 صوبائی دارالحکومتوں میں سے 9 پر قبضہ کرلیا۔
اسی دوران امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ اُنھیں افغانستان سے اپنی افواج کے انخلا کے فیصلے پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔ اس سے قبل امریکی صدر جو بائیڈن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ملک کا دفاع کرنا افغان فوج کی ہی ذمہ داری ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ امریکہ کا افغانستان میں فوجی مشن 31 اگست کو مکمل طور پر اپنے اختتام کو پہنچ جائے گا اور افغانستان کی عوام کو اپنے ملک کے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ امریکیوں کی ایک اور نسل کو 20 سال کی جنگ میں دھکیلنا نہیں چاہتے۔
یوروپی یونین کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے منگل کے روز خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتایا کہ طالبان اب افغانستان کے 65 فیصد علاقے پر قابض ہیں اور مزید 11 صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔
شہری مراکز سے آگے بڑھنے والے طالبان کو پیچھے ہٹانے کے لیے ایک بڑی کوشش میں افغان فورسز نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران فضائی اور زمینی کارروائیوں میں 361 طالبان جنگجوؤں کو ہلاک کیا۔
ایک سرکاری عہدیدار نے بتایا کہ بھارت جس نے پورے افغانستان میں ترقیاتی منصوبوں میں لاکھوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے، نے اب اپنے تمام قونصل خانے بند کردیے ہیں اور صرف کابل میں سفارت خانہ ہی کام کررہا ہے۔
فراہ پر قبضے کا اعلان کرتے ہوئے طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ٹویٹ کیا کہ گورنر آفس اور اس سے منسلک تمام سامان ضبط کرلیے گئے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ انٹیلی جنس اور پولیس کمانڈ سنٹر کے قریب دو پوسٹیں بھی قبضے میں لے لی گئی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
- افغانستان میں پھنسے ہندو اور سِکھوں کو نکالا جائے: کانگریس ترجمان
- امریکہ اور برطانیہ کی اپنے شہریوں کو افغانستان چھوڑنے کی ہدایت
- ناٹو افواج کا غیرذمہ دارانہ انخلا بدامنی کا باعث بن سکتا ہے: شاہ محمود قریشی
دریں اثنا بلخ کے گورنر محمد فرہاد عظیمی نے منگل کو کہا کہ افغان نیشنل سیکورٹی اور ڈیفنس فورسز (اے این ڈی ایس ایف) نے مزار شریف شہر پر طالبان عسکریت پسندوں کو پیچھے دھکیل دیا اور ضلع نہر شاہی کو واپس لے لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اے این ڈی ایس ایف اور طالبان کے درمیان جھڑپیں پیر کی رات نہر شاہی اور دیہدی اضلاع میں شروع ہوئیں۔
طلوع نیوز نے مسٹر عظیمی کے حوالے سے بتایا کہ سیکورٹی فورسز کی زبردست کارروائی کی وجہ سے طالبان کو علاقہ چھوڑنا پڑا۔ انہوں نے کہا ’’طالبان نے اپنی توجہ صوبہ بلخ پر مرکوز کر رکھی ہے‘‘۔
نہر شاہی کے پولیس چیف سلطان موسوی نے کہا کہ ہم نے سخت مزاحمت کے باوجود اور فضائیہ کی مدد سے علاقے پر دوبارہ قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔
سرکاری حکام کے مطابق ملک میں جاری تشدد کی وجہ سے جنوبی علاقوں بالخصوص قندھار سے 20 ہزار افراد بے گھر ہوئے ہیں۔ قندھار حالیہ مہینوں میں شدید لڑائی کا شکار رہا ہے۔ اس کے علاوہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے فراہ، بادگش اور ہلمند صوبوں سے بھی نقل مکانی کی ہے۔
طالبان نے پیر کو شمالی صوبے سمنگان کے دارالحکومت ایبک پر قبضہ کرلیا تھا۔ اس سے قبل طالبان نے قندوز، تخار، جوزجان، سرپل اور نیمروز صوبوں کے دارالحکومتوں پر قبضہ کرلیا تھا۔ ہرات، قندھار اور ہلمند میں سکیورٹی فورسز اور طالبان عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں۔