امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے یکم مئی تک افغانستان سے غیر ملکی فوجيوں کا انخلاء مشکل بتانے پر طالبان نے شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے۔
ماسکو میں جاری امن کانفرنس کے درمیان طالبان کے رہنماؤں نے پریس کانفرنس کر کے کہا کہ اگر دوحہ معاہدے کے مطابق امریکہ نے یکم مئی تک تمام غیر ملکی کا انخلا نہیں کیا تو نتائج کے ذمہ دار وہ خود ہوں گے۔
طالبان نے امریکہ کو وارننگ دیتے ہوئے کہا کہ 'اگر وعدے کے مطابق افواج کا انخلا نہیں کیا گیا تو اس کے سنگین نتائج اور مضمرات ہوں گے۔ امریکہ کو رد عمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔' تاہم یہ وضاحت نہیں کہ وہ کس نوعیت کے رد عمل کی بات کر رہے ہیں۔
ماسکو میں میڈیا سے بات چیت میں طالبان کے رہنما سہیل شاہین نے وقت مقررہ پر غیر ملکی افواج کے انخلا کی امید ظاہر کی، ساتھ ہی اسلامی حکومت کو بحال کرنے کے عزم کا اعادہ کیا تاہم اس حکومت کے خد و خال کی وضاحت نہیں کی۔
واضح رہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے بدھ کے روز ایک بیان میں کہا کہ افغانستان میں موجود بقیہ فوجيوں کا مئی تک انخلا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔
بائیڈن کا کہنا تھا کہ 'میں اس بارے ميں حتمی فیصلہ لینے کے مرحلے میں ہوں کہ ہم کب تک افغانستان سے اپنے فوجيوں کو واپس بلائيں گے۔ ایسا ہو سکتا ہے، لیکن فی الحال يہ بہت مشکل بھی ہے۔'
ماسکو امن کانفرنس کی اپیل
امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے وقت پر آیا ہے جب طالبان اور افغان حکومت سمیت خطے کے دیگر فریقوں کے درمیان روس کے دارالحکومت ماسکو میں مذاکرات ہو رہے تھے۔ ماسکو میں ہوئے ان مذاکرات کا مقصد افغان امن عمل کو آگے بڑھانا اور جنگ بندی کی کوششوں کو تیز کرنا تھا۔
ماسکو میں امن کانفرنس کے اختتام پر جاری ہوئے مشترکہ بیان میں روس، امریکا، چین اور پاکستان نے افغان کے فریقین سے جنگ بندی پر فوری مذاکرات کا مطالبہ کیا ہے۔
مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ بین الافغان مذاکرات میں امن کے لیے اہم نکات پر بات چیت کا آغاز کیا جائے جبکہ افغان فریقین اختلافات اور افغانستان میں تشدد میں کمی کے لیے مل کر کام کریں تاکہ سیاسی اور سفارتی فوائد حاصل کرنے کے لیے سازگار ماحول بنایا جاسکے۔
مزید پڑھیں: میانمار: سکیورٹی فورسز نے مظاہرین پر آنسو گیس کا استعمال کیا
مشترکہ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ افغانستان میں طالبان کے اسلامی امارات کی حمایت نہیں کی جائے گی۔
ماسکو میں جمعرات کے روز ہونے والی اس کانفرنس میں مختلف اہم افغان رہنما شریک ہوئے، جن میں افغانستان کی سپریم قومی مفاہمت کونسل کے چیئرمین عبد اللہ عبد اللہ، سابق صدر حامد کرزئی اور مارشل عبدالرشید دوستم شامل تھے۔
وہیں، طالبان کی طرف ملا عبد الغنی برادر کی سربراہی میں طالبان کے دس سینئر نمائندوں نے ان مذاکرات میں شرکت کی۔