سرکاری حکام کے مطابق پاکستان کے صوبہ سندھ میں ایک 15 سالہ ہندو لڑکی کو زبردستی اسلام قبول کرایا گیا۔ بعد ازاں اس نے ایک مسلمان شخص سے شادی کی۔ اس معاملے کے تحت لڑکی کو عدالتی حکم کے بعد خواتین کے ایک حفاظتی مرکز میں بھیج دیا گیا ہے۔
نویں جماعت کی طالبہ مہک کماری کو مبینہ طور پر 15 جنوری کو علی رضا سولنگی نے ضلع جیکب آباد سے اغوا کیا تھا جس نے اس سے بعد میں شادی کرلی۔
لڑکی کے والد وجئے کمار نے ایف آئی آر درج کرائی، جس میں یہ دعوی کیا گیا ہے کہ سولنگی نے اسے زبردستی اغوا کرکے اس سے شادی کرلی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جب ان کی بیٹی کو اغوا کیا گیا تو اس کی عمر محض 15 برس تھی۔
عدالتی عہدیداروں کے مطابق کماری اور سولنگی کو منگل کے روز عدالت میں پیش کیا گیا، جہاں سے لڑکی کو خواتین پولیس پروٹیکشن سینٹر میں بھیج دیا گیا ہے۔
عدالت نے 'چندکا میڈیکل کالج ہاسپٹل' کو 3 فروری تک لڑکی کی عمر سے متعلق رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔
بدھ کے روز ضلع جیکب آباد کے ایک ہندو گروپ کے رہنما کے ساتھ ٹیلیفونک گفتگو کرتے ہوئے ریاست کے اقلیتی امور کے وزیر ہری رام کشور لعل نے کہا کہ سند حکومت لڑکی کے خاندان اور ہندو گروپ کے موقف کی مکمل حمایت کرتی ہے۔
ہری لعل نے کہا کہ نابالغ ہندو لڑکیوں کا جبرا مذہب تبدیل کرانا ایک عام مسئلہ بن گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سندھ کے ہندو اس کے سب سے قدیم باشندے ہیں اور اس سرزمین سے ان کا گہرا ناطہ ہے۔
انہوں نے حکام سے اپیل کی کہ وہ ہندو لڑکیوں کے ساتھ ہونے والے ظلم اور نا انصافی کا نوٹس لیں اور اقلیتی برادری کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کریں۔
لعل نے اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ مہک کماری کی شادی 18 برس سے پہلے قانونی طور پر درست نہیں ہے۔
وزیر نے لڑکی کو خواتین پولیس پروٹیکشن سینٹر بھیجنے کے عدالت کے فیصلے کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ایسے معاملات میں لڑکیوں کو ان کے حوالے نہیں کیا جانا چاہئے، جو ان کے اغوا میں ملوث تھے۔