پاکستان نے پیر کے روز واضح کیا کہ اس نے افغانستان میں کسی خاص فریق کی حمایت نہیں کی اور کہا کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے اسلامک اسٹیٹ (آئی ایس) اور افغان طالبان کے بارے میں حالیہ تبصروں کو غلط انداز سے پیش کیا جا رہا ہے۔
قریشی سے ہفتے کے روز ملتان میں ایک پریس کانفرنس کے دوران آئی ایس کے عسکریت پسندوں کے افغانستان میں منتقل ہونے کی اطلاعات کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے اپنے جواب میں کہا کہ "اگر وہ عراق یا شام سے منتقل ہو رہے ہیں تو ان کی جانچ کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟ افغان حکومت کو ان پر نظر رکھنا اور ان کی نگرانی کرنی چاہئے۔ مجھے امید ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو نظر انداز نہیں کریں گے۔"
انہوں نے وضاحت کی کہ نہ تو افغان حکومت اور نہ طالبان، افغانستان کے پڑوسی یا عالمی برادری آئی ایس کی بحالی چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ "اس پر سبھی کی اتفاق رائے ہے۔ اب ان کی یہ ذمہ داری ہے اور انہیں اسے پورا کرنا چاہیے۔''
شاہ محمود قریشی کے ریمارکس سوشل میڈیا اور افغان پریس میں اس طرح پیش کیے گئے جیسے کہ وہ صورتحال کو سبھالنے کے لئے طالبان سے توقع کرتے ہیں، نہ کہ افغان حکومت سے۔
وزیر خارجہ نے دہشت گردی کے خلاف بین الاقوامی برادری، علاقائی پلیئر اور خود افغانوں کے درمیان اتفاق رائے کے بارے میں واضح طور پر بات کی۔
دفتر خارجہ نے بیان میں کہا کہ ''ان کے ریمارکس کو کسی بھی طرح افغان تنازعے میں کسی خاص فریق کی وکالت کے طور پر نہیں سمجھا جانا چاہئے۔''
بیان میں کہا گیا ہے کہ "ہم بار بار کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کا افغانستان میں کوئی پسندیدہ نہیں ہے۔ ہم تنازع کے تمام فریقوں کو افغان کے طور پر دیکھتے ہیں جنہیں اپنے مستقبل کے بارے میں خود فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم افغان امن عمل میں تعمیری سہولت کا کردار ادا کرتے رہیں گے۔''
یہ بھی پڑھیں: Pakistan Taliban Relation: 'پاکستان طالبان کی کارروائی کا ذمہ دار نہیں'
پچھلے ہفتے وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ پاکستان حکومت طالبان کی ترجمان نہیں ہے اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے فوجیوں کے انخلا کے بعد افغانستان میں باغی گروپ کی کارروائیوں کے لیے اسلام آباد کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے۔
خان نے کہا کہ پاکستان جو بھی افغان منتخب کرے گا اس کے ساتھ اچھے تعلقات رکھے گا۔ انہوں نے کہا کہ "اب ہمارے پاس کوئی پسندیدہ نہیں ہے۔"