ETV Bharat / international

خصوصی رپورٹ: بِرِکس کیا ہے؟ آسان انداز میں سمجھئیے

'برک' کی اصطلاح برطانوی ماہر معاشیات جم او نیل نے سنہ 2001 میں دی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ اگر برک ممالک ایک ساتھ ملکر کام کرتے ہیں، تو وہ ترقی کر کے ترقی یافتہ مغربی ممالک کے ہم پلہ کھڑے ہو سکتے ہیں۔

author img

By

Published : Nov 16, 2019, 7:16 PM IST

متعلقہ تصویر

برکس ممالک کا گیارہواں اجلاس جنوبی امریکی ریاست برازیل کے دارالحکومت براسیلیا میں 13 اور 14 نومبر کو منعقد ہوا۔

آخر برکس کیا ہے؟ سمجھئیے آسان انداز میں: ویڈیو

'اکنامک گروتھ فار این انوویٹیو فیوچر' یعنی جدید مستقبل میں معاشی ترقی، موجودہ اجلاس کا 'موضوع' یعنی تھیم رکھا گیا۔ اس موقع پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھارت کی نمائندگی کی۔

آئیے جانتے ہیں کہ اصل میں برکس کیا ہے، کیوں بنایا گیا، کب بنایا گیا، اور ہر برس سرخیوں میں کیوں رہتا ہے؟

در اصل دنیا کے 5 ممالک برازیل، روس، انڈیا، چین اور ساوتھ افریقہ کے شروعاتی حروف سے ملکر بنایا گیا ایک لفظ ہے، جسے 'برکس' کہتے ہیں۔ یعنی دنیا کے پانچ ممالک کا یہ ایک اہم اتحاد ہے۔

برکس سمجھئیے نقشے میں
برکس سمجھئیے نقشے میں

'برک' کی اصطلاح برطانوی ماہر معاشیات جم او نیل نے سنہ 2001 میں دی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ اگر برک ممالک ایک ساتھ ملکر کام کرتے ہیں، تو وہ ترقی کر کے ترقی یافتہ مغربی ممالک کے ہم پلہ کھڑے ہو سکتے ہیں۔

آخر کار سنہ 2006 میں برک کے قیام کی کوششیں شروع ہوئیں۔ اور سنہ 2009 میں 'برک' کا پہلا سمٹ روس میں منعقد کیا گیا۔

اس دوران برک ممالک کے دو اہم مقاصد تھے، پہلا یہ کہ عالمی معاشی حالت کو کیسے بہتر بنایا جائے، اور معاشی اداروں میں کس طرح سدھار کیا جائے، تاکہ اپنی معیشت کو بہتر کر کے عالمی سطح پر اپنی حیثیت کو برقرار رکھا جا سکے۔

کل ملا کر اگر کہا جائے تو ان پانچوں ممالک کی کوشش ہے کہ دنیا کو اپنا لوہا کیسے منوایا جائے۔

دوسرا مقصد یہ تھا کہ روس اور چین کے علاوہ باقی تین ممالک بھارت، برازیل اور جنوبی افریقہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پرماننٹ ممبر نہیں ہیں، اسی مقصد کے تحت برکس ممالک کا ماننا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے طرز پر ہی ایک متوازی سلامتی کونسل کا بھی قیام کیا جائے گا، جس میں برکس کے سبھی ممالک سلامتی کونسل کے پرماننت رکن ہوں گے۔ حالانہ اب تک اس مقصد کو حاصل نہیں کیا جا سکا ہے، تاہم اس سمت میں بھی جد و جہد جاری ہے۔

قیام کے ابتدائی دور میں جنوبی افریقہ اس اتحاد کا حصہ نہیں تھا، لیکن سنہ 2010 میں جنوبی افریقہ کے شامل ہونے کے بعد اس اتحاد کو 'برک' کے بجائے 'برکس' کہا جانے لگا۔

سنہ 2014 میں برکس ممالک نے مشترکہ طور پر مشترکہ 20 فیصد کی حصہ داری کے ساتھ ایک بینک کا بھی قیام کیا، جسے 'نیو ڈیولیپمینٹ بینک' کہا جاتا ہے۔

سنہ 2014 میں قائم کیا گیا برکس کا بینک
سنہ 2014 میں قائم کیا گیا برکس کا بینک

بینک کے قیام کا مقصد، اتحادی ممالک کے سرکاری اور پرائیویٹ پروجیکٹز کو قرضہ مہیا کرانے کے ساتھ ہی ورلدڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے عالمی بینکز کو چیلینج کرنا اور ان کے متوازی کھڑے ہونا تھا۔ بینک کا ہنڈ کوارٹر چین کے شہر شنگھائی میں واقع ہے۔

برکس ممالک میں دنیا کی 42 فیصد آبادی اور دنیا کا 26 فیصد رقبہ شامل ہے۔ سنہ 2017 میں سبھی برکس ممالک کی 'جی ڈی پی' کی مالیت تقریبا 18.35 بلین امریکی ڈالر تھی۔

تقریبا دنیا کی آدھی آبادی برکس ممالک میں رہتی ہے
تقریبا دنیا کی آدھی آبادی برکس ممالک میں رہتی ہے

برکس ممالک کا سالانہ اجلاس ہر برس پانچوں ممالک میں باری باری سے ہوتا ہے۔ ان اجلاس میں سیاسی، سماجی اور اقتصادی ہم آہنگی کے شعبوں پر تبادلہ خیال ہوتا ہے۔

سائنس، ٹیکنالوجی اور تجدید کاری پر باہمی تعاون کو مضبوط بنانا، ڈیجیٹل معیشت کو فروغ دینا، اور بین الاقوامی جرائم، خاص کر منظم جرائم، منی لانڈرنگ اور منشیات فروشی کے خلاف جنگ کو یقینی بنانا برکس کے نئے مقاصد میں شامل ہے۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ موجودہ اجلاس میں کیا کچھ کار گزاری رہی۔ جی ہاں گیارہویں اجلاس میں میزبان وزیر اعظم بولسینارو کے علاوہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی، چینی صدر شی جن پن، روسی صدر ویلادیمیر پتن اور جنوبی افریقہ کے وزیر اعظم رامافوسا نے شرکت کی۔

اجلاس کے برکس بزنس فورم سے برکس ممالک کے رہنماوں نے خطاب کیا۔ اور رکن ممالک نے ترقی کے اسباب اور لائحہ عمل پر گفتگو کی۔

اس موقع پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عالمی مندی کے باوجود برکس ممالک نے اقتصادی ترقی کو آگے بڑھایا ہے۔ انہوں نے بھارت کو کاروبار کے لیے سب سے زیادہ مناسب قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ برکس ممالک میں سے ہر ایک ملک مختلف طور پر ترقی میں تعاون دے سکتا ہے۔ مثلا کسی ملک میں تکنیک، کسی میں اسکل، کسی میں وسائل تو کسی میں خام اشیا کی موجودگی ہے۔ ایسے میں سبھی ممالک کے مشترکہ تعاون سے برکس کے لیے ترقی کی راہیں ہموار کی جا سکتی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ کم از کم ایسے پانچ شعبوں کی شناخت کرلینی چاہیے جس میں ہم مشترکہ کاروبار کو فروغ دے سکیں۔

بھارتی وزیر اعظم نے برازیل کے صدر جائر بولسونارو، روس کے صدر ولادیمر پوتن اور چین کے صدر شی جن پنگ سے ملاقات کر کے دوطرفہ بات چیت بھی کی۔

گذشتہ 10 برسوں کے بعد بھی برکس کے مقاصد ان کے طے شدہ ہدف کے مطابق حاصل نہیں ہو رہے ہیں، آخر اس کی کیا وجہ ہے۔ آئیے سمجھتے ہیں۔

در اصل برکس ممالک کے مختلف آپسی تنازعات کے سبب برکس کے مقاصد کو حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ مثلا پاکستان کو چین کی حمایت سے بھارت اور چین کے درمیان کشیدگی۔ اس کے ساتھ ہی تجارتی معاملات میں بھی چین اور بھارت میں تلخی وقتا فوقتا دیکھنے کو ملتی ہے، جس کی تازہ مثال آسیان سمٹ میں دیکھنے کو ملی جب چین کے سبب بھارت نے آر سیپ کا حصہ بننے سے انکار کر دیا تھا۔

اس کے علاوہ حکومتی نظام سے متعلق بھی پیچیدگی ہے۔ بھارت جنوبی افریقہ اور برازیل میں جمہوری نظام ہے، تو وہیں چین میں کمیونسٹ حکومت قائم ہے۔

ان ممالک کے درمیان تنازع کی وجہ امریکہ بھی ہے۔ کیوں کہ ان میں سے کچھ ممالک امریکہ کے ساتھ ہیں تو کچھ امریکہ کے خلاف ہیں، اور اس کا اثر بھی ان کے باہمی رشتوں پر پڑتا ہے۔

ساتھ ہی برکس میں دیگر ممالک کو شامل کرنے سے متعلق بھی سبھی ممالک کی رائے متفق نہیں ہے۔ اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ اگر برکس ممالک ان معاملات کو حل کرنے یا اس سے اوپر اٹھ کر کام کرنے کی کوشش کریں گے، تو برکس کا ایک کامیاب اتحاد بننے سے کوئی نہیں روک سکتا ہے۔

خیال رہے کہ سنہ 2020 میں برکس کا باہواں اجلاس روس میں منعقد ہو گا۔ حالیہ دنوں میں بھارت اور روس کے درمیان دفاعی معاہدے اور بھارتی وزیر اعظم کو روس دورے کی دعوت کے پیش نظر بھارت کے لیے بارہویں اجلاس کو بے حد اہم قرار دیا جا سکتا ہے۔

برکس ممالک کا گیارہواں اجلاس جنوبی امریکی ریاست برازیل کے دارالحکومت براسیلیا میں 13 اور 14 نومبر کو منعقد ہوا۔

آخر برکس کیا ہے؟ سمجھئیے آسان انداز میں: ویڈیو

'اکنامک گروتھ فار این انوویٹیو فیوچر' یعنی جدید مستقبل میں معاشی ترقی، موجودہ اجلاس کا 'موضوع' یعنی تھیم رکھا گیا۔ اس موقع پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھارت کی نمائندگی کی۔

آئیے جانتے ہیں کہ اصل میں برکس کیا ہے، کیوں بنایا گیا، کب بنایا گیا، اور ہر برس سرخیوں میں کیوں رہتا ہے؟

در اصل دنیا کے 5 ممالک برازیل، روس، انڈیا، چین اور ساوتھ افریقہ کے شروعاتی حروف سے ملکر بنایا گیا ایک لفظ ہے، جسے 'برکس' کہتے ہیں۔ یعنی دنیا کے پانچ ممالک کا یہ ایک اہم اتحاد ہے۔

برکس سمجھئیے نقشے میں
برکس سمجھئیے نقشے میں

'برک' کی اصطلاح برطانوی ماہر معاشیات جم او نیل نے سنہ 2001 میں دی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ اگر برک ممالک ایک ساتھ ملکر کام کرتے ہیں، تو وہ ترقی کر کے ترقی یافتہ مغربی ممالک کے ہم پلہ کھڑے ہو سکتے ہیں۔

آخر کار سنہ 2006 میں برک کے قیام کی کوششیں شروع ہوئیں۔ اور سنہ 2009 میں 'برک' کا پہلا سمٹ روس میں منعقد کیا گیا۔

اس دوران برک ممالک کے دو اہم مقاصد تھے، پہلا یہ کہ عالمی معاشی حالت کو کیسے بہتر بنایا جائے، اور معاشی اداروں میں کس طرح سدھار کیا جائے، تاکہ اپنی معیشت کو بہتر کر کے عالمی سطح پر اپنی حیثیت کو برقرار رکھا جا سکے۔

کل ملا کر اگر کہا جائے تو ان پانچوں ممالک کی کوشش ہے کہ دنیا کو اپنا لوہا کیسے منوایا جائے۔

دوسرا مقصد یہ تھا کہ روس اور چین کے علاوہ باقی تین ممالک بھارت، برازیل اور جنوبی افریقہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پرماننٹ ممبر نہیں ہیں، اسی مقصد کے تحت برکس ممالک کا ماننا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے طرز پر ہی ایک متوازی سلامتی کونسل کا بھی قیام کیا جائے گا، جس میں برکس کے سبھی ممالک سلامتی کونسل کے پرماننت رکن ہوں گے۔ حالانہ اب تک اس مقصد کو حاصل نہیں کیا جا سکا ہے، تاہم اس سمت میں بھی جد و جہد جاری ہے۔

قیام کے ابتدائی دور میں جنوبی افریقہ اس اتحاد کا حصہ نہیں تھا، لیکن سنہ 2010 میں جنوبی افریقہ کے شامل ہونے کے بعد اس اتحاد کو 'برک' کے بجائے 'برکس' کہا جانے لگا۔

سنہ 2014 میں برکس ممالک نے مشترکہ طور پر مشترکہ 20 فیصد کی حصہ داری کے ساتھ ایک بینک کا بھی قیام کیا، جسے 'نیو ڈیولیپمینٹ بینک' کہا جاتا ہے۔

سنہ 2014 میں قائم کیا گیا برکس کا بینک
سنہ 2014 میں قائم کیا گیا برکس کا بینک

بینک کے قیام کا مقصد، اتحادی ممالک کے سرکاری اور پرائیویٹ پروجیکٹز کو قرضہ مہیا کرانے کے ساتھ ہی ورلدڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے عالمی بینکز کو چیلینج کرنا اور ان کے متوازی کھڑے ہونا تھا۔ بینک کا ہنڈ کوارٹر چین کے شہر شنگھائی میں واقع ہے۔

برکس ممالک میں دنیا کی 42 فیصد آبادی اور دنیا کا 26 فیصد رقبہ شامل ہے۔ سنہ 2017 میں سبھی برکس ممالک کی 'جی ڈی پی' کی مالیت تقریبا 18.35 بلین امریکی ڈالر تھی۔

تقریبا دنیا کی آدھی آبادی برکس ممالک میں رہتی ہے
تقریبا دنیا کی آدھی آبادی برکس ممالک میں رہتی ہے

برکس ممالک کا سالانہ اجلاس ہر برس پانچوں ممالک میں باری باری سے ہوتا ہے۔ ان اجلاس میں سیاسی، سماجی اور اقتصادی ہم آہنگی کے شعبوں پر تبادلہ خیال ہوتا ہے۔

سائنس، ٹیکنالوجی اور تجدید کاری پر باہمی تعاون کو مضبوط بنانا، ڈیجیٹل معیشت کو فروغ دینا، اور بین الاقوامی جرائم، خاص کر منظم جرائم، منی لانڈرنگ اور منشیات فروشی کے خلاف جنگ کو یقینی بنانا برکس کے نئے مقاصد میں شامل ہے۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ موجودہ اجلاس میں کیا کچھ کار گزاری رہی۔ جی ہاں گیارہویں اجلاس میں میزبان وزیر اعظم بولسینارو کے علاوہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی، چینی صدر شی جن پن، روسی صدر ویلادیمیر پتن اور جنوبی افریقہ کے وزیر اعظم رامافوسا نے شرکت کی۔

اجلاس کے برکس بزنس فورم سے برکس ممالک کے رہنماوں نے خطاب کیا۔ اور رکن ممالک نے ترقی کے اسباب اور لائحہ عمل پر گفتگو کی۔

اس موقع پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عالمی مندی کے باوجود برکس ممالک نے اقتصادی ترقی کو آگے بڑھایا ہے۔ انہوں نے بھارت کو کاروبار کے لیے سب سے زیادہ مناسب قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ برکس ممالک میں سے ہر ایک ملک مختلف طور پر ترقی میں تعاون دے سکتا ہے۔ مثلا کسی ملک میں تکنیک، کسی میں اسکل، کسی میں وسائل تو کسی میں خام اشیا کی موجودگی ہے۔ ایسے میں سبھی ممالک کے مشترکہ تعاون سے برکس کے لیے ترقی کی راہیں ہموار کی جا سکتی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ کم از کم ایسے پانچ شعبوں کی شناخت کرلینی چاہیے جس میں ہم مشترکہ کاروبار کو فروغ دے سکیں۔

بھارتی وزیر اعظم نے برازیل کے صدر جائر بولسونارو، روس کے صدر ولادیمر پوتن اور چین کے صدر شی جن پنگ سے ملاقات کر کے دوطرفہ بات چیت بھی کی۔

گذشتہ 10 برسوں کے بعد بھی برکس کے مقاصد ان کے طے شدہ ہدف کے مطابق حاصل نہیں ہو رہے ہیں، آخر اس کی کیا وجہ ہے۔ آئیے سمجھتے ہیں۔

در اصل برکس ممالک کے مختلف آپسی تنازعات کے سبب برکس کے مقاصد کو حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ مثلا پاکستان کو چین کی حمایت سے بھارت اور چین کے درمیان کشیدگی۔ اس کے ساتھ ہی تجارتی معاملات میں بھی چین اور بھارت میں تلخی وقتا فوقتا دیکھنے کو ملتی ہے، جس کی تازہ مثال آسیان سمٹ میں دیکھنے کو ملی جب چین کے سبب بھارت نے آر سیپ کا حصہ بننے سے انکار کر دیا تھا۔

اس کے علاوہ حکومتی نظام سے متعلق بھی پیچیدگی ہے۔ بھارت جنوبی افریقہ اور برازیل میں جمہوری نظام ہے، تو وہیں چین میں کمیونسٹ حکومت قائم ہے۔

ان ممالک کے درمیان تنازع کی وجہ امریکہ بھی ہے۔ کیوں کہ ان میں سے کچھ ممالک امریکہ کے ساتھ ہیں تو کچھ امریکہ کے خلاف ہیں، اور اس کا اثر بھی ان کے باہمی رشتوں پر پڑتا ہے۔

ساتھ ہی برکس میں دیگر ممالک کو شامل کرنے سے متعلق بھی سبھی ممالک کی رائے متفق نہیں ہے۔ اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ اگر برکس ممالک ان معاملات کو حل کرنے یا اس سے اوپر اٹھ کر کام کرنے کی کوشش کریں گے، تو برکس کا ایک کامیاب اتحاد بننے سے کوئی نہیں روک سکتا ہے۔

خیال رہے کہ سنہ 2020 میں برکس کا باہواں اجلاس روس میں منعقد ہو گا۔ حالیہ دنوں میں بھارت اور روس کے درمیان دفاعی معاہدے اور بھارتی وزیر اعظم کو روس دورے کی دعوت کے پیش نظر بھارت کے لیے بارہویں اجلاس کو بے حد اہم قرار دیا جا سکتا ہے۔

Intro:Body:Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.