ETV Bharat / international

بھارت اور جاپان طلوع آفتاب کی زمین

گوہاٹی میں بھارت اور جاپان کے مابین ہونے والا اجلاس قومی سلامتی اور معاشی بحالی کے پس منظر میں کافی اہمیت کا حامل ہے۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر یوگیندر کے الگھ نے بھارت ۔ جاپان تعلقات پر ایک خاص مضمون لکھا ہے۔

بھارت اور جاپان طلوع آفتاب کی زمین
بھارت اور جاپان طلوع آفتاب کی زمین
author img

By

Published : Dec 12, 2019, 1:37 AM IST

جی 20 میں بھارت کی رکنیت اور بھارت کا جی 8 میں مستقل طور پر مدعو ہونا عالمی معیشت کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا۔

کینیڈا نے جی 8 کو بنانے میں اہم رول ادا کیا اور حیرت کی بات ہے کہ سابق وزیراعظم منموہن سنگھ کی حکومت نے اس میں زیادہ دلچسپی نہیں دکھائی لیکن جاپان نے اس کی حمایت کی جس سے بھارت کو بھی فائدہ ہوا۔

جامع علاقائی معاشی شراکت داری (آر سی ای پی) میں شمولیت اختیار کرنے میں جاپان کی مستقل مزاجی کی وجہ سے ہم آر سی ای پی سے باہر ہیں۔ حال ہی میں ٹورنٹو میں جی 8 انسٹی ٹیوٹ کے جان کرٹن نے اس بات پر روشنی ڈالی۔

وزیراعظم ٹروڈو کے سوانح نگار جان انگلش نے بھارت اور چین کے کردار کو اجاگر کیا۔

انہوں نے کہا تھا کہ بھارت اس وقت دلچسپی لے سکتا ہے جب اس کے معاشی خدشات کے بارے میں اعلی سطح پر بات ہو۔ اس اسٹریٹیجک پس منظر پر گوہاٹی میں اجلاس کا آغاز ہوگا۔

موجودہ مرحلے پر ہمیں جاپان کے ساتھ خاص اقتصادی مفادات وابستہ ہیں۔ بجائے اس کے کہ دفتر خارجہ غیر مساوی تجارت کا رونا روئے، ہمیں چاہیے کہ ہم ان کے ساتھ خوراک اور خام مال کی درآمدات پر توجہ مرکوز کریں۔ جاپانی معیشت اصل میں وسائل کی کمی کا شکار ہے حالانکہ اقتصادی سطح اور ترقی میں اس کا ریکارڈ بہتر ہے۔

ہم جاپان کو چاول برآمد کرسکتے ہیں کیونکہ جاپان چاول درآمد کرنے والے بڑے ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ وہاں مقامی کسانوں کو فی کوئنٹل 30000 روپے سبسڈی دی جاتی ہے۔ جاپانی ایک قسم کا چپچپا چاول استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے سائنسدان اس قسم کا چاول آسانی سے کاشت کر سکتے ہیں۔ اگر ہم طویل مدتی معاہدہ کر سکیں تو کم از کم پانچ لاکھ ایکڑ اراضی کو اس کاشتکاری کے لیے مختص کیا جاسکتا ہے۔

وہ متوازن تجارت پر شائستگی سے لیکچر سنیں گے لیکن بزنس تجاویز کو ترجیح دیں گے۔ ایسے کئی اور منصوبے ممکن ہو سکتے ہیں۔

یاد رہے کہ ہم نے پلاننگ کمیشن کو تو خیر باد کہہ دیا ہے لیکن جاپان میں ایسے ادارے اب بھی کام کر رہے ہیں۔

جاپانی اپنے کام کو موثر طریقے سے کم وقت میں ختم کرنے کے عادی ہیں اور یہ ہمارے لیے کافی مدد گار ثابت ہوسکتا ہے۔ ایسے وقت میں جب ہمارا ملک معاشی بدحالی کا شکار ہے۔

ورلڈ بینک اور دیگر امدادی ایجنسیز، پروجیکٹ کی منظوری سے قبل وقتاً فوقتاً وقت لیتے ہیں۔ جاپان کے ساتھ نرمدا پالاننگ گروپ میں بطور وائس چیئر اور ایس ٹی پی میں بطور پاور منسٹر رہنے کے دوران میں نے تجربہ کیا کہ جاپان فیصلہ لینے میں سست روی سے کام نہیں لیتے ہیں۔ وہ کسی بھی منصوبے کا فیصلہ لیتے ہی ماہرین بھیجیں گے، جائزہ لیں گے اور جلد از جلد اسے نافذ کریں گے۔

سہ ماہی کے بعد مسلسل سرمایہ کاری کی شرحیں کم ہوتی جارہی ہیں اور اس موقع کا ہمیں فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ جاپان کے ساتھ ہمیں پانی اور پاور کے ساتھ مشترکہ پروجیکٹ کرنے سے سرمایہ کاری کو فروغ ملے گا اور ہمیں اسی کی ضرورت ہے۔

میرے سب سے پسندیدہ خوابوں میں سے کیواڈیا کے آرٹ سینٹر میں واٹر نولیج گلوبل اسٹیٹ ہے اور مجھے یقین ہے کہ سردار اسٹیچیو آف یونٹی کے علاوہ اس پروجیکٹ کو بھی وہ پسند کریں گے۔ مجھے یقین ہے کہ جاپان اس کے لیے فنڈ جاری کرے گا اور دنیا کے لیے ٹریننگ سینٹر بن جائے گا۔

ہمیں احمد آباد اور ممبئی کے درمیان بلیٹ ٹرین کی شروعات کرنی چاہیے۔ جاپانی درخت کی کٹائی کو لے کر کافی حساس ہیں اور مجھے لگتا ہے کہ وہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے مہاراشٹر کی نئی حکومت کی مدد کریں گے۔

جاپان کی ایک طویل تاریخ ہے اور انہوں نے اپنی تاریخ میں ہر جاپانی مظاہرین کو جگہ دی ہے۔ ایسی کوئی بھی چیز نہیں ہے جو ہمیں جاپان کے ساتھ وزیر اعلی ٹھاکرے سے باہمی ملاقات کرنے سے روکے۔

کہانی کا نچوڑ یہ ہے کہ ہم جاپانیوں کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے اچھی طرح سے تیار رہیں۔کم باتیں کریں اور زیادہ عملی نظریات پر توجہ دیں چونکہ جتنا اسٹریٹیجک منصوبہ بندی پر توجہ دیں اتنا ہی یہ ہمارے لیے مدد گار ہوگا۔

اس سوچ سے ہم اس خیال پر بھی غور کر سکتے ہیں کہ بھارت اور جاپان کے مابین زیادہ ثقافتی تبادلہ ہونا چاہیے۔ وہ ہمارے جیسا کثیر مذہبی ملک ہے۔ روایتی شنتو مذہب، بودھ، مسیحی اور اسلام کے ماننے والے لوگ وہاں موجود ہیں۔

جاپان کے شہر کیوٹو کے باہری علاقے میں ہندوؤں کا ایک قدیم مندر واقع ہے لیکن بھارت سے باہر قدم رکھتے ہی ہم ہیرو اور ولن کی الجھن میں پڑجاتے ہیں۔

گینزا میں ایک بزرک شخص کا کہنا ہے کہ 'میں نے بھارت کی کئی کتابوں کا مطالعہ کیا اور مجھے لگتا ہے کہ ہمیں ان سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔'

دعوت میں جاپانی بودھ اپنے دسترخوان میں سبزی سے بنی ہوئی اشیاء کو نان ویج غذا کی شکل دیتے ہیں۔ ہمیں اپنے عقیدے پر قائم رہنا چاہیے لیکن ساتھ میں ضم ہونے کی بھی ضرورت ہے۔

ہر برس جاپان پوری دنیا سے چند افراد کا انتخاب کرتا ہے اور انہیں جاپان فاؤنڈیشن فیلو شپ مہیا کرتا ہے جس کے بعد وہ جاپان میں چھ ماہ کے لیے رہ سکتے ہیں۔

مجھے بھی ایک بار فیلو شپ کے لیے منتخب کیا گیا تھا اور میں نے کم از کم ایک ماہ کا وقفہ گزارا تھا۔ میں نے جاپان کا دورہ کئی بار کیا ہے۔ ہمیں خود مختاری کے لیے سول سوسائٹی کے ذریعہ جاپان کے ساتھ ثقافتی تبادلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ شاید ہم سیاست میں بدعنوانی سے بچ سکتے ہیں۔

جی 20 میں بھارت کی رکنیت اور بھارت کا جی 8 میں مستقل طور پر مدعو ہونا عالمی معیشت کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا۔

کینیڈا نے جی 8 کو بنانے میں اہم رول ادا کیا اور حیرت کی بات ہے کہ سابق وزیراعظم منموہن سنگھ کی حکومت نے اس میں زیادہ دلچسپی نہیں دکھائی لیکن جاپان نے اس کی حمایت کی جس سے بھارت کو بھی فائدہ ہوا۔

جامع علاقائی معاشی شراکت داری (آر سی ای پی) میں شمولیت اختیار کرنے میں جاپان کی مستقل مزاجی کی وجہ سے ہم آر سی ای پی سے باہر ہیں۔ حال ہی میں ٹورنٹو میں جی 8 انسٹی ٹیوٹ کے جان کرٹن نے اس بات پر روشنی ڈالی۔

وزیراعظم ٹروڈو کے سوانح نگار جان انگلش نے بھارت اور چین کے کردار کو اجاگر کیا۔

انہوں نے کہا تھا کہ بھارت اس وقت دلچسپی لے سکتا ہے جب اس کے معاشی خدشات کے بارے میں اعلی سطح پر بات ہو۔ اس اسٹریٹیجک پس منظر پر گوہاٹی میں اجلاس کا آغاز ہوگا۔

موجودہ مرحلے پر ہمیں جاپان کے ساتھ خاص اقتصادی مفادات وابستہ ہیں۔ بجائے اس کے کہ دفتر خارجہ غیر مساوی تجارت کا رونا روئے، ہمیں چاہیے کہ ہم ان کے ساتھ خوراک اور خام مال کی درآمدات پر توجہ مرکوز کریں۔ جاپانی معیشت اصل میں وسائل کی کمی کا شکار ہے حالانکہ اقتصادی سطح اور ترقی میں اس کا ریکارڈ بہتر ہے۔

ہم جاپان کو چاول برآمد کرسکتے ہیں کیونکہ جاپان چاول درآمد کرنے والے بڑے ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ وہاں مقامی کسانوں کو فی کوئنٹل 30000 روپے سبسڈی دی جاتی ہے۔ جاپانی ایک قسم کا چپچپا چاول استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے سائنسدان اس قسم کا چاول آسانی سے کاشت کر سکتے ہیں۔ اگر ہم طویل مدتی معاہدہ کر سکیں تو کم از کم پانچ لاکھ ایکڑ اراضی کو اس کاشتکاری کے لیے مختص کیا جاسکتا ہے۔

وہ متوازن تجارت پر شائستگی سے لیکچر سنیں گے لیکن بزنس تجاویز کو ترجیح دیں گے۔ ایسے کئی اور منصوبے ممکن ہو سکتے ہیں۔

یاد رہے کہ ہم نے پلاننگ کمیشن کو تو خیر باد کہہ دیا ہے لیکن جاپان میں ایسے ادارے اب بھی کام کر رہے ہیں۔

جاپانی اپنے کام کو موثر طریقے سے کم وقت میں ختم کرنے کے عادی ہیں اور یہ ہمارے لیے کافی مدد گار ثابت ہوسکتا ہے۔ ایسے وقت میں جب ہمارا ملک معاشی بدحالی کا شکار ہے۔

ورلڈ بینک اور دیگر امدادی ایجنسیز، پروجیکٹ کی منظوری سے قبل وقتاً فوقتاً وقت لیتے ہیں۔ جاپان کے ساتھ نرمدا پالاننگ گروپ میں بطور وائس چیئر اور ایس ٹی پی میں بطور پاور منسٹر رہنے کے دوران میں نے تجربہ کیا کہ جاپان فیصلہ لینے میں سست روی سے کام نہیں لیتے ہیں۔ وہ کسی بھی منصوبے کا فیصلہ لیتے ہی ماہرین بھیجیں گے، جائزہ لیں گے اور جلد از جلد اسے نافذ کریں گے۔

سہ ماہی کے بعد مسلسل سرمایہ کاری کی شرحیں کم ہوتی جارہی ہیں اور اس موقع کا ہمیں فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ جاپان کے ساتھ ہمیں پانی اور پاور کے ساتھ مشترکہ پروجیکٹ کرنے سے سرمایہ کاری کو فروغ ملے گا اور ہمیں اسی کی ضرورت ہے۔

میرے سب سے پسندیدہ خوابوں میں سے کیواڈیا کے آرٹ سینٹر میں واٹر نولیج گلوبل اسٹیٹ ہے اور مجھے یقین ہے کہ سردار اسٹیچیو آف یونٹی کے علاوہ اس پروجیکٹ کو بھی وہ پسند کریں گے۔ مجھے یقین ہے کہ جاپان اس کے لیے فنڈ جاری کرے گا اور دنیا کے لیے ٹریننگ سینٹر بن جائے گا۔

ہمیں احمد آباد اور ممبئی کے درمیان بلیٹ ٹرین کی شروعات کرنی چاہیے۔ جاپانی درخت کی کٹائی کو لے کر کافی حساس ہیں اور مجھے لگتا ہے کہ وہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے مہاراشٹر کی نئی حکومت کی مدد کریں گے۔

جاپان کی ایک طویل تاریخ ہے اور انہوں نے اپنی تاریخ میں ہر جاپانی مظاہرین کو جگہ دی ہے۔ ایسی کوئی بھی چیز نہیں ہے جو ہمیں جاپان کے ساتھ وزیر اعلی ٹھاکرے سے باہمی ملاقات کرنے سے روکے۔

کہانی کا نچوڑ یہ ہے کہ ہم جاپانیوں کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے اچھی طرح سے تیار رہیں۔کم باتیں کریں اور زیادہ عملی نظریات پر توجہ دیں چونکہ جتنا اسٹریٹیجک منصوبہ بندی پر توجہ دیں اتنا ہی یہ ہمارے لیے مدد گار ہوگا۔

اس سوچ سے ہم اس خیال پر بھی غور کر سکتے ہیں کہ بھارت اور جاپان کے مابین زیادہ ثقافتی تبادلہ ہونا چاہیے۔ وہ ہمارے جیسا کثیر مذہبی ملک ہے۔ روایتی شنتو مذہب، بودھ، مسیحی اور اسلام کے ماننے والے لوگ وہاں موجود ہیں۔

جاپان کے شہر کیوٹو کے باہری علاقے میں ہندوؤں کا ایک قدیم مندر واقع ہے لیکن بھارت سے باہر قدم رکھتے ہی ہم ہیرو اور ولن کی الجھن میں پڑجاتے ہیں۔

گینزا میں ایک بزرک شخص کا کہنا ہے کہ 'میں نے بھارت کی کئی کتابوں کا مطالعہ کیا اور مجھے لگتا ہے کہ ہمیں ان سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔'

دعوت میں جاپانی بودھ اپنے دسترخوان میں سبزی سے بنی ہوئی اشیاء کو نان ویج غذا کی شکل دیتے ہیں۔ ہمیں اپنے عقیدے پر قائم رہنا چاہیے لیکن ساتھ میں ضم ہونے کی بھی ضرورت ہے۔

ہر برس جاپان پوری دنیا سے چند افراد کا انتخاب کرتا ہے اور انہیں جاپان فاؤنڈیشن فیلو شپ مہیا کرتا ہے جس کے بعد وہ جاپان میں چھ ماہ کے لیے رہ سکتے ہیں۔

مجھے بھی ایک بار فیلو شپ کے لیے منتخب کیا گیا تھا اور میں نے کم از کم ایک ماہ کا وقفہ گزارا تھا۔ میں نے جاپان کا دورہ کئی بار کیا ہے۔ ہمیں خود مختاری کے لیے سول سوسائٹی کے ذریعہ جاپان کے ساتھ ثقافتی تبادلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ شاید ہم سیاست میں بدعنوانی سے بچ سکتے ہیں۔

Intro:Body:

id


Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.