ETV Bharat / international

پاکستان ڈیموکریٹک مومنٹ کے کوئٹہ جلسے پر خصوصی تجزیاتی رپورٹ

سوسائٹی فار پالیسی سٹیڈیز کے ڈائریکٹر، سی اُدھے بھاسکر نے ای ٹی وی بھارت کے لیے یہ تجزیہ لکھا ہے اور پاکستان کے موجودہ حالات اور سیاسی کشیدگی پر اپنی تفصیلی تجزیاتی رپورٹ پیش کی ہے۔

author img

By

Published : Oct 26, 2020, 9:51 PM IST

sdf
sdf

پاکستان کی 11 سیاسی جماعتوں پر مشتمل 'اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک مومنٹ' ( پی ڈی ایم) نے اتوار یعنی 25 اکتوبر کو کوئٹہ میں احتجاج کے تیسرے مرحلے کا مظاہرہ کیا۔ یہ احتجاج پاکستان کی داخلی سیاست میں پیچیدگی اور بدلاو کا اشارہ ہے۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف کا لندن سے ویڈیو لنک کے ذریعے پُر جوش خطاب بھی یہ عندیہ دیتا ہے کہ یہ تجربہ کار سیاستدان، جن کی سنہ 1999ء میں جنرل مشرف کے اقتدار پر قبضے کے بعد بار بار تذلیل کی گئی، گرفتار کیا گیا اور جیل بھیج دیا گیا، اب پاکستان کے سیاسی اکھاڑے میں کود پڑے ہیں۔

عمران خان کی زیر قیادت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کے بارے میں ایک عام تاثر یہی ہے کہ یہ حکومت پاکستانی فوج کی جانب سے منتخب کی گئی ہے اور وزیر اعظم عمران خان فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجواہ کے مرہونِ منت ہیں۔

ثانی الذکر کی سروس کی معیاد میں عمران خان نے توسیع کردی، جس کی وجہ سے شکوک و شبہات نے جنم لیا اور اس کے نتیجے میں وزیر اعظم کا فوج پر انحصار بڑھ گیا۔ ویسے بھی پاکستان میں حکومت اور فوج کی تعلق داری کوئی نئی بات نہیں ہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ سنہ 1990ء میں نواز شریف کے پہلے دورِ حکومت میں اُنہیں بھی فوج کا منظورِ نظر تصور کیا جاتا تھا۔ عمران خان کے دو سالہ دور اقتدار میں سیاسی مخالفین کو دبانے کا اُن کا واحد ایجنڈا حاوی رہا اور اس کے نتیجے میں مایوسی پھیلتی گئی اور بالآخر ستمبر میں پاکستان ڈیموکریٹک مومنٹ نامی اتحاد معرض وجود آگیا۔ اپوزیشن جماعتیں بشمول پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، جمعیتِ علمائے اسلام (فضل) اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی اس اتحاد کی اہم جماعتوں میں شامل ہیں۔ اتحاد میں شامل دیگر پارٹیوں میں بلوچ نیشنل پارٹی اور پشتوں تحفظ مومنٹ جیسی جماعتوں نے اپنے آپسی اختلافات کو فراموش کرتے ہوئے پاکستان ڈیموکریٹک مومنٹ میں شمولیت اختیار کی ہے۔

عمران خان مخالف اس اتحاد کے صدر جمعیت الاسلام (فضل) کے سربراہ اور معروف پشتوں رہنما مولانا فضل الرحمان ہیں۔ اتحاد میں شامل کم عمر رہنما مریم نواز اور بلاول بٹھو شامل ہیں۔ مریم نواز سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی اور پاکستان مسلم لیگ(ن) کی نائب صدر ہیں، جبکہ بلاول بٹھو زرداری پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر پرسن ہیں۔ بلاول سابق پاکستانی وزیر اعظم بے نظیر بٹھو، جنہیں دسمبر 2007ء میں قتل کیا گیا، ان کے بیٹے اور ذوالفقار علی بٹھو (جنہیں جنرل ضیا الحق نے پھانسی دے دی تھی) ان کے نواسے ہیں۔

تین بار وزیر اعظم رہ چکے نواز شریف نے فوج کی جارحیت کے خلاف الم بغاوت بلند کرتے ہوئے کہا کہ 'عوامی جوش و خروش کو دیکھ کر مجھے یقین ہوگیا ہے کہ اب کوئی بھی رائے دہندگان کی عزت پامال نہیں کر پائے گا۔ میں نے گجرانوالہ اور کراچی میں بھی لوگوں کا جوش و خروش دیکھا اور اب یہاں کوئٹہ میں بھی دیکھ رہا ہوں'۔

نواز شریف پاکستان ڈیموکریٹ مومنٹ کے اہتمام سے گجرانوالہ،پنجاب اور کراچی میں اکتوبر کے وسط میں منعقد کیے گئے عوامی جلسوں کا تذکرہ کررہے تھے۔ اتوار کو کوئٹہ بلوچستان میں منعقدہ جلسے سے اب یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ پاکستان ڈیموکریٹک مومنٹ کو ملک کے تینوں بڑے اور سب سے زیادہ آبادی والے صوبوں یعنی پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں عوامی حمایت حاصل ہے اور اس سے یہ بھی اندازہ ہورہا ہے کہ عمران خان کی حکومت ڈگمگا رہی ہے۔

پاکستان ڈیموکریٹ مومنٹ کے حوالے سے سب زیادہ منفرد بات یہ ہے کہ اس کے احتجاجی جلسے میں سابق وزیر اعظم نواز شریف نے پہلی بار کھلے عام فوج کی تنقید کی اور اُنہیں اقتدار سے بے دخل کرنے کا ذمہ دار فوجی سربراہ جنرل باجواہ کو قرار دیا۔

16 اکتوبر کو گجرانوالہ میں پاکستان ڈیموکریٹک مومنٹ کے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ فوج، حکومت سے بڑھ کر ایک حکومت ہے۔ اُنہوں نے باجوا پر الزام عائد کیا کہ اُنہوں نے عدلیہ کے ساتھ سازش کرتے ہوئے اُنہیں اقتدار سے بے دخل کرنے اور ایک مشکوک انتخاب کے ذریعے عمران خان کی حکومت مسلط کرنے میں اپنا کردار نبھایا ہے۔ اسے حکومت پر فوج کا پس پردہ قبضہ قرار دیا جاسکتا ہے۔

ایک غیر معمولی واقعہ، جس کی مثال پہلے کبھی دیکھنے کو نہیں ملی ہے، کہ 18 اکتوبر کو پاکستان ڈیموکریٹک مومنٹ کے کراچی جلسے کے بعد پاکستانی رینجرز (جو پاکستانی فوج کے کنٹرول میں ہے) نے کراچی کے ایک اعلیٰ پولیس آفیسر کو ڈرا یا دھمکایا اور نواز شریف کے داماد کو گرفتار کرلیا۔ بے عزتی اور تذلیل آمیز رویہ کے خلاف سندھ کے انسپکٹر جنرل آف پولیس مشتاق مہران احتجاجی رخصت پر چلے گئے اور اُن کی حمایت میں اُن کے ماتحت افسران نے بھی بطور احتجاج چھٹی پر جانے کا فیصلہ کیا۔ اس واقعہ کے بعد پاکستانی فوج کی جانب سے پولیس کے خلاف کاررائی کی وجہ سے صورتحال خراب ہوگئی، لیکن اسے مزید بگڑنے سے بچانے کے لئے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بٹھو زرداری نے فوجی سربراہ جنرل باجواہ کو مداخلت کرنے کا اصرار کیا۔ اس واقعہ کی تحقیق شروع کی گئی ہے، جس کی رپورٹ دس دنوں کے اندر اندر ( 30 اکتوبر) تک سامنے لائی جائے گی۔ اس وجہ سے انسپکٹر جنرل آف پولیس نے بطور احتجاج رخصت پر جانے کا فیصلہ موخر کردیا۔ تاہم اس واقعہ کے حوالے سے صورتحال ہنوز کشیدہ ہے۔

کوئٹہ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مریم نواز نے اس واقعہ کے حوالے سے کہا کہ ملک میں حکومت کے اُوپر ایک اور حکومت ( فوج) کی حکومت ہے۔

انہوں نے فوج کی موجودگی کا معاملہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ اس واقعہ سے پاکستانی فوج اور انٹیلی جینس ایجنسیوں کے تئیں مقامی بلوچ کی ناراضگی میں اضافہ ہوگیا ہے۔

مریم نے کہا کہ 'جس طرح سے انسپکٹر جنرل کو اغوا کیا گیا اور ہوٹل اور میرے گھر پر چھاپہ مارا گیا، اس کے نتیجے میں بلوچستان کے لوگ یہ بات سمجھ سکتے ہیں کہ اُن کے مخالفین کی سوچ کیا ہے، جنہوں نے قوم کی بیٹیوں اور بہنوں کے کمروں میں گھسنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ انہوں ( فوج ) نے یہ دکھا دیا کہ حکومت کے اُوپر جو حکومت مسلط ہوتی ہے، وہ کیا کچھ کرسکتی ہے'۔

وزیر اعظم عمران خان جلسوں کا انعقاد کرتے ہوئے برسر اقتدار آگئے ہیں۔ ساتھ ہی اُنہیں خفیہ طاقتوں کی حمایت بھی حاصل تھی جو اس اہم عہدے پر کسی لچکدار عوامی رہنما کو بٹھا دینا چاہتی تھیں، تاکہ حکومت کے اُوپر ایک حکومت (فوج) مسلط کرنا ممکن ہوسکے۔

جس طرح سے جنرل باجوا کی معیاد میں توسیع کردی گئی اور جس طرح سے نئے فوجی سربراہ کی تعیناتی کا امکان ہے، اس کو دیکھ کر فوج کے اندر بھی غم و غصہ پایا جارہا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کو کئی چیلنجز درپیش ہیں۔ اُنہیں کووڈ وبا سے کامیابی کے ساتھ نمٹنے کے دعووں سے آگے بڑھ کر عوامی حمایت حاصل کرنے کے امتحان سے گزرنا ہوگا۔ کیونکہ کوئٹہ میں یہ بات دیکھنے کو ملی ہے کہ اُن کی حکومت کے خلاف عوامی ناراضگی بڑھ رہی ہے۔

پاکستان کا داخلی خلفشار بڑھ رہا ہے اور نئی دہلی اور بیجنگ اس صورتحال کو اپنے تناظر میں دیکھ رہے ہونگے۔

پاکستان کی 11 سیاسی جماعتوں پر مشتمل 'اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک مومنٹ' ( پی ڈی ایم) نے اتوار یعنی 25 اکتوبر کو کوئٹہ میں احتجاج کے تیسرے مرحلے کا مظاہرہ کیا۔ یہ احتجاج پاکستان کی داخلی سیاست میں پیچیدگی اور بدلاو کا اشارہ ہے۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف کا لندن سے ویڈیو لنک کے ذریعے پُر جوش خطاب بھی یہ عندیہ دیتا ہے کہ یہ تجربہ کار سیاستدان، جن کی سنہ 1999ء میں جنرل مشرف کے اقتدار پر قبضے کے بعد بار بار تذلیل کی گئی، گرفتار کیا گیا اور جیل بھیج دیا گیا، اب پاکستان کے سیاسی اکھاڑے میں کود پڑے ہیں۔

عمران خان کی زیر قیادت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کے بارے میں ایک عام تاثر یہی ہے کہ یہ حکومت پاکستانی فوج کی جانب سے منتخب کی گئی ہے اور وزیر اعظم عمران خان فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجواہ کے مرہونِ منت ہیں۔

ثانی الذکر کی سروس کی معیاد میں عمران خان نے توسیع کردی، جس کی وجہ سے شکوک و شبہات نے جنم لیا اور اس کے نتیجے میں وزیر اعظم کا فوج پر انحصار بڑھ گیا۔ ویسے بھی پاکستان میں حکومت اور فوج کی تعلق داری کوئی نئی بات نہیں ہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ سنہ 1990ء میں نواز شریف کے پہلے دورِ حکومت میں اُنہیں بھی فوج کا منظورِ نظر تصور کیا جاتا تھا۔ عمران خان کے دو سالہ دور اقتدار میں سیاسی مخالفین کو دبانے کا اُن کا واحد ایجنڈا حاوی رہا اور اس کے نتیجے میں مایوسی پھیلتی گئی اور بالآخر ستمبر میں پاکستان ڈیموکریٹک مومنٹ نامی اتحاد معرض وجود آگیا۔ اپوزیشن جماعتیں بشمول پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، جمعیتِ علمائے اسلام (فضل) اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی اس اتحاد کی اہم جماعتوں میں شامل ہیں۔ اتحاد میں شامل دیگر پارٹیوں میں بلوچ نیشنل پارٹی اور پشتوں تحفظ مومنٹ جیسی جماعتوں نے اپنے آپسی اختلافات کو فراموش کرتے ہوئے پاکستان ڈیموکریٹک مومنٹ میں شمولیت اختیار کی ہے۔

عمران خان مخالف اس اتحاد کے صدر جمعیت الاسلام (فضل) کے سربراہ اور معروف پشتوں رہنما مولانا فضل الرحمان ہیں۔ اتحاد میں شامل کم عمر رہنما مریم نواز اور بلاول بٹھو شامل ہیں۔ مریم نواز سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی اور پاکستان مسلم لیگ(ن) کی نائب صدر ہیں، جبکہ بلاول بٹھو زرداری پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر پرسن ہیں۔ بلاول سابق پاکستانی وزیر اعظم بے نظیر بٹھو، جنہیں دسمبر 2007ء میں قتل کیا گیا، ان کے بیٹے اور ذوالفقار علی بٹھو (جنہیں جنرل ضیا الحق نے پھانسی دے دی تھی) ان کے نواسے ہیں۔

تین بار وزیر اعظم رہ چکے نواز شریف نے فوج کی جارحیت کے خلاف الم بغاوت بلند کرتے ہوئے کہا کہ 'عوامی جوش و خروش کو دیکھ کر مجھے یقین ہوگیا ہے کہ اب کوئی بھی رائے دہندگان کی عزت پامال نہیں کر پائے گا۔ میں نے گجرانوالہ اور کراچی میں بھی لوگوں کا جوش و خروش دیکھا اور اب یہاں کوئٹہ میں بھی دیکھ رہا ہوں'۔

نواز شریف پاکستان ڈیموکریٹ مومنٹ کے اہتمام سے گجرانوالہ،پنجاب اور کراچی میں اکتوبر کے وسط میں منعقد کیے گئے عوامی جلسوں کا تذکرہ کررہے تھے۔ اتوار کو کوئٹہ بلوچستان میں منعقدہ جلسے سے اب یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ پاکستان ڈیموکریٹک مومنٹ کو ملک کے تینوں بڑے اور سب سے زیادہ آبادی والے صوبوں یعنی پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں عوامی حمایت حاصل ہے اور اس سے یہ بھی اندازہ ہورہا ہے کہ عمران خان کی حکومت ڈگمگا رہی ہے۔

پاکستان ڈیموکریٹ مومنٹ کے حوالے سے سب زیادہ منفرد بات یہ ہے کہ اس کے احتجاجی جلسے میں سابق وزیر اعظم نواز شریف نے پہلی بار کھلے عام فوج کی تنقید کی اور اُنہیں اقتدار سے بے دخل کرنے کا ذمہ دار فوجی سربراہ جنرل باجواہ کو قرار دیا۔

16 اکتوبر کو گجرانوالہ میں پاکستان ڈیموکریٹک مومنٹ کے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ فوج، حکومت سے بڑھ کر ایک حکومت ہے۔ اُنہوں نے باجوا پر الزام عائد کیا کہ اُنہوں نے عدلیہ کے ساتھ سازش کرتے ہوئے اُنہیں اقتدار سے بے دخل کرنے اور ایک مشکوک انتخاب کے ذریعے عمران خان کی حکومت مسلط کرنے میں اپنا کردار نبھایا ہے۔ اسے حکومت پر فوج کا پس پردہ قبضہ قرار دیا جاسکتا ہے۔

ایک غیر معمولی واقعہ، جس کی مثال پہلے کبھی دیکھنے کو نہیں ملی ہے، کہ 18 اکتوبر کو پاکستان ڈیموکریٹک مومنٹ کے کراچی جلسے کے بعد پاکستانی رینجرز (جو پاکستانی فوج کے کنٹرول میں ہے) نے کراچی کے ایک اعلیٰ پولیس آفیسر کو ڈرا یا دھمکایا اور نواز شریف کے داماد کو گرفتار کرلیا۔ بے عزتی اور تذلیل آمیز رویہ کے خلاف سندھ کے انسپکٹر جنرل آف پولیس مشتاق مہران احتجاجی رخصت پر چلے گئے اور اُن کی حمایت میں اُن کے ماتحت افسران نے بھی بطور احتجاج چھٹی پر جانے کا فیصلہ کیا۔ اس واقعہ کے بعد پاکستانی فوج کی جانب سے پولیس کے خلاف کاررائی کی وجہ سے صورتحال خراب ہوگئی، لیکن اسے مزید بگڑنے سے بچانے کے لئے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بٹھو زرداری نے فوجی سربراہ جنرل باجواہ کو مداخلت کرنے کا اصرار کیا۔ اس واقعہ کی تحقیق شروع کی گئی ہے، جس کی رپورٹ دس دنوں کے اندر اندر ( 30 اکتوبر) تک سامنے لائی جائے گی۔ اس وجہ سے انسپکٹر جنرل آف پولیس نے بطور احتجاج رخصت پر جانے کا فیصلہ موخر کردیا۔ تاہم اس واقعہ کے حوالے سے صورتحال ہنوز کشیدہ ہے۔

کوئٹہ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مریم نواز نے اس واقعہ کے حوالے سے کہا کہ ملک میں حکومت کے اُوپر ایک اور حکومت ( فوج) کی حکومت ہے۔

انہوں نے فوج کی موجودگی کا معاملہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ اس واقعہ سے پاکستانی فوج اور انٹیلی جینس ایجنسیوں کے تئیں مقامی بلوچ کی ناراضگی میں اضافہ ہوگیا ہے۔

مریم نے کہا کہ 'جس طرح سے انسپکٹر جنرل کو اغوا کیا گیا اور ہوٹل اور میرے گھر پر چھاپہ مارا گیا، اس کے نتیجے میں بلوچستان کے لوگ یہ بات سمجھ سکتے ہیں کہ اُن کے مخالفین کی سوچ کیا ہے، جنہوں نے قوم کی بیٹیوں اور بہنوں کے کمروں میں گھسنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ انہوں ( فوج ) نے یہ دکھا دیا کہ حکومت کے اُوپر جو حکومت مسلط ہوتی ہے، وہ کیا کچھ کرسکتی ہے'۔

وزیر اعظم عمران خان جلسوں کا انعقاد کرتے ہوئے برسر اقتدار آگئے ہیں۔ ساتھ ہی اُنہیں خفیہ طاقتوں کی حمایت بھی حاصل تھی جو اس اہم عہدے پر کسی لچکدار عوامی رہنما کو بٹھا دینا چاہتی تھیں، تاکہ حکومت کے اُوپر ایک حکومت (فوج) مسلط کرنا ممکن ہوسکے۔

جس طرح سے جنرل باجوا کی معیاد میں توسیع کردی گئی اور جس طرح سے نئے فوجی سربراہ کی تعیناتی کا امکان ہے، اس کو دیکھ کر فوج کے اندر بھی غم و غصہ پایا جارہا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کو کئی چیلنجز درپیش ہیں۔ اُنہیں کووڈ وبا سے کامیابی کے ساتھ نمٹنے کے دعووں سے آگے بڑھ کر عوامی حمایت حاصل کرنے کے امتحان سے گزرنا ہوگا۔ کیونکہ کوئٹہ میں یہ بات دیکھنے کو ملی ہے کہ اُن کی حکومت کے خلاف عوامی ناراضگی بڑھ رہی ہے۔

پاکستان کا داخلی خلفشار بڑھ رہا ہے اور نئی دہلی اور بیجنگ اس صورتحال کو اپنے تناظر میں دیکھ رہے ہونگے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.