برکس سمٹ کا بارہواں اجلاس روس کی میزبانی میں منگل کو 'عالمی استحکام، مشترکہ سلامتی اور جدید ترقی' کے عنوان کے ساتھ ورچوئل حالت میں منعقد ہو گا۔
روسی صدر ویلادیمر پتن کی دعوت پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اس سمٹ میں شرکت کریں گے۔ اس کی اطلاع وزارت خارجہ نے پیر کو دی۔
وزارت خارجہ نے بتایا کہ برکس کا بارہواں سمٹ اقوام متحدہ کی 75ویں برسی کے موقع پر کووڈ 19 کا خیال رکھتے ہوئے منعقد ہو رہا ہے۔
وزارت خارجہ کے مطابق اس سمٹ میں رکن ممالک کے سبھی رہنما 'برکس' کے باہمی اشتراک اور بین الاقوامی پس منظر میں اہم امور پر تبادلہ خیال کریں گے۔ ان میں بالخصوص کثیرالجہتی نظام میں بہتری، کورونا وائرس کے اثرات کو کم کرنے، دہشت گردی کی روک تھام کے لیے باہمی اشتراک، تجارت، صحت، توانائی اور لوگوں سے لوگوں کے تبادلے جیسے اہم امور پر بات چیت کی جائے گی۔
بیان میں کہا گیا کہ بھارت سنہ 2021 میں 13 ویں برکس سمٹ کی میزبانی کرے گا، جو بھارت کی 2012 اور 2016 کے بعد تیسری میزبانی ہو گی۔
چین اور بھارت کے مابین سرحدی تنازع کے دوران بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی دوسری بار چینی صدر شی جن پنگ سے روبرو ہوں گے۔ اس سے قبل شنگھائی کو آپریشن میں دونوں رہنما آمنے سامنے آئے تھے۔
پیر کو روسی وزارت خارجہ نے بتایا کہ شرکت کرنے والے ممالک برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ کے رہنما بین الاقوامی ایجنڈا اور باہمی تعاون کے امکان پر گفتگو کریں گے۔
اس سے قبل گذشتہ برس برکس ممالک کا گیارہواں اجلاس جنوبی امریکی ریاست برازیل کے دارالحکومت براسیلیا میں 13 اور 14 نومبر کو منعقد ہوا۔
آئیے جانتے ہیں کہ اصل میں برکس کیا ہے، کیوں بنایا گیا، کب بنایا گیا، اور ہر برس سرخیوں میں کیوں رہتا ہے؟
در اصل دنیا کے 5 ممالک برازیل، روس، انڈیا، چین اور ساوتھ افریقہ کے شروعاتی حروف سے ملکر بنایا گیا ایک لفظ ہے، جسے 'برکس' کہتے ہیں۔ یعنی دنیا کے پانچ ممالک کا یہ ایک اہم اتحاد ہے۔
'برک' کی اصطلاح برطانوی ماہر معاشیات جم او نیل نے سنہ 2001 میں دی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ اگر برک ممالک ایک ساتھ ملکر کام کرتے ہیں، تو وہ ترقی کر کے ترقی یافتہ مغربی ممالک کے ہم پلہ کھڑے ہو سکتے ہیں۔
آخر کار سنہ 2006 میں برک کے قیام کی کوششیں شروع ہوئیں۔ اور سنہ 2009 میں 'برک' کا پہلا سمٹ روس میں منعقد کیا گیا۔
اس دوران برک ممالک کے دو اہم مقاصد تھے، پہلا یہ کہ عالمی معاشی حالت کو کیسے بہتر بنایا جائے، اور معاشی اداروں میں کس طرح سدھار کیا جائے، تاکہ اپنی معیشت کو بہتر کر کے عالمی سطح پر اپنی حیثیت کو برقرار رکھا جا سکے۔
کل ملا کر اگر کہا جائے تو ان پانچوں ممالک کی کوشش ہے کہ دنیا کو اپنا لوہا کیسے منوایا جائے۔
دوسرا مقصد یہ تھا کہ روس اور چین کے علاوہ باقی تین ممالک بھارت، برازیل اور جنوبی افریقہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پرماننٹ ممبر نہیں ہیں، اسی مقصد کے تحت برکس ممالک کا ماننا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے طرز پر ہی ایک متوازی سلامتی کونسل کا بھی قیام کیا جائے گا، جس میں برکس کے سبھی ممالک سلامتی کونسل کے پرماننت رکن ہوں گے۔ حالانہ اب تک اس مقصد کو حاصل نہیں کیا جا سکا ہے، تاہم اس سمت میں بھی جد و جہد جاری ہے۔
قیام کے ابتدائی دور میں جنوبی افریقہ اس اتحاد کا حصہ نہیں تھا، لیکن سنہ 2010 میں جنوبی افریقہ کے شامل ہونے کے بعد اس اتحاد کو 'برک' کے بجائے 'برکس' کہا جانے لگا۔
سنہ 2014 میں برکس ممالک نے مشترکہ طور پر مشترکہ 20 فیصد کی حصہ داری کے ساتھ ایک بینک کا بھی قیام کیا، جسے 'نیو ڈیولیپمینٹ بینک' کہا جاتا ہے۔
بینک کے قیام کا مقصد، اتحادی ممالک کے سرکاری اور پرائیویٹ پروجیکٹز کو قرضہ مہیا کرانے کے ساتھ ہی ورلدڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے عالمی بینکز کو چیلینج کرنا اور ان کے متوازی کھڑے ہونا تھا۔ بینک کا ہنڈ کوارٹر چین کے شہر شنگھائی میں واقع ہے۔
برکس ممالک میں دنیا کی 42 فیصد آبادی اور دنیا کا 26 فیصد رقبہ شامل ہے۔ سنہ 2017 میں سبھی برکس ممالک کی 'جی ڈی پی' کی مالیت تقریبا 18.35 بلین امریکی ڈالر تھی۔
برکس ممالک کا سالانہ اجلاس ہر برس پانچوں ممالک میں باری باری سے ہوتا ہے۔ ان اجلاس میں سیاسی، سماجی اور اقتصادی ہم آہنگی کے شعبوں پر تبادلہ خیال ہوتا ہے۔
سائنس، ٹیکنالوجی اور تجدید کاری پر باہمی تعاون کو مضبوط بنانا، ڈیجیٹل معیشت کو فروغ دینا، اور بین الاقوامی جرائم، خاص کر منظم جرائم، منی لانڈرنگ اور منشیات فروشی کے خلاف جنگ کو یقینی بنانا برکس کے نئے مقاصد میں شامل ہے۔