امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ ایران کے خلاف عائد پابندیوں کو ختم کرنا ایک طویل عمل ہے جس میں وقت لگے گا۔
صدر جو بائیڈن نے 2015 کے ایران جوہری معاہدے میں دوبارہ شامل ہونے اور اس کے تحت امریکی ذمہ داریوں کی تعمیل کی بات کی ہے، جس کے لئے یہ عمل جلد شروع ہونے کی امید ہے۔
جہاں بلنکن نے ایران کے خلاف پابندیوں کو ختم کرنے کی بات کہی ہے، وہیں انہوں نے کہا ہے کہ صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں لئے گئے فیصلوں پر نظرثانی کر رہی ہے، جس میں یمن کے حوثی جنگجوؤں پرعائد پابندیوں پر بھی غور کیا جارہا ہے۔
بلنکن نے بدھ کے روز صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’’ہم اس مقام سے دور ہیں جس تک پہنچنے میں وقت لگے گا۔ جوہری معاہدے کی تعمیل کے حوالے سے ایران بہت سے محاذوں پر ناکام رہا ہے ، لہذا معاہدے پر عمل درآمد کرنے اور اپنی ذمہ داریوں کے تحت امریکی کاروائیاں شروع کرنے میں وقت لگے گا۔ ہم اپنی پوری کوشش کریں گے۔
انہوں نے یمن کے حوثی جنگجوؤں پر کہا ہے کہ ’’ہم ٹرمپ انتظامیہ کے دور حکومت میں لئے گئے فیصلوں کا جائزہ لے رہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہر معاملے کو صحیح طور پر سمجھا جائے اور اس پر بحث کی جائے۔ میں واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ میں حوثی جنگجوؤں پر پابندیوں کے معاملے پر خصوصی توجہ دے رہا ہوں‘‘۔
امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ صدر بائیڈن نے ایران جوہری معاہدے میں امریکہ کے دوبارہ شامل ہونے کا وعدہ کیا تھا ، اور اگر ایران اس معاہدے کے تحت اپنے فرائض کی تعمیل کرتا ہے تو یہ عمل جلد ہی شروع ہوجائے گا۔
بلنکن نے کہا ’’ایران کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کچھ خاص امور پر بہت خراب ہیں جن کو ہم اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر حل کرنے کی کوشش کریں گے‘‘۔
قابل ذکر ہے کہ مئی 2018 میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران جوہری معاہدے سے دستبرداری کا اعلان کیا تھا۔