امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان سے امریکی فوجیوں کو واپس لانے کے اپنے عہد کو تجدید کیا ہے کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ کے مطابق 'اس کا مقصد امریکہ کی طویل ترین جنگ کا خاتمہ ہے'۔
ٹرمپ نے امریکی کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کی سب سے طویل ترین جنگ کے خاتمے اور اپنے فوجیوں کو وطن واپس لانے کے لئے یہ کام کر رہے ہیں، جس کے ذریعے ازسر نو خارجہ پالیسی کے نکات کو قابل عمل بنایا جائے گا'۔
ٹرمپ نے کانگریس کے مشترکہ اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے بتایا 'ہمارا مقصد افغانستان میں سیکڑوں ہزاروں افراد کو مارنا نہیں ہے، جن میں سے بہت سارے بے گناہ ہیں'۔
انہوں نے کہا ہے کہ 'قانون نافذ کرنے والے ادارے کی حیثیت سے دیگر ممالک کی خدمت کرنا ہمارا کام نہیں ہے۔ طالبان جنگجو ہیں وہ یا تو جنگ جیتنا چاہتے ہیں یا نہیں لڑنا چاہتے ہیں'۔
اس باوجود بھی امریکی صدر نے طالبان کے ساتھ مذاکرات جاری رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔
واضح رہے کہ سنہ 2001 میں امریکہ نے افغانستان میں اسامہ بن لادین کی موجودگی کا دعوی کیا تھا، جس کے بعد افغانستان میں امریکی فوج کو تعینات کیا گیا تھا۔ امریکہ کا یہ دعوی وقت گزرنے کے بعد جھوٹ ثابت ہوا۔
بتادیں کہ دونوں فریقوں کے مابین ہونے والے مذاکرات حالیہ ہفتوں میں پیش قدمی کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ واشنگٹن نے معاہدے تک پہنچنے کی شرط کے طور پر تشدد میں کمی پر زور دیا ہے۔ جس کے فورا بعد طالبان نے امریکہ پر بات چیت میں تاخیر کا الزام عائد کیا۔
مزید پڑھیں: ٹرمپ نے اسٹیٹ آف یونین میں کیا کہا؟
طالبان نے امریکہ پر الزام لگایا کہ وہ امن مذاکرات میں رکاوٹ ڈال رہا ہے جب امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا کہ تشدد میں کمی کے قابل ثبوت ضروری ہیں۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں کہا ہے کہ 'پومپیو کو الزام تراشی نہیں کرنی چاہئے۔ ہمارا موقف اصولی اور واضح ہے، اور ہماری پالیسی مخالف فریق کی طرح متزلزل نہیں ہے'۔