امریکہ نے سعودی عرب کو 650 ملین ڈالرز کے ہتھیاروں کی فروخت کرنے کی منظوری دے دی۔ اس سودے کے تحت امریکا سعودی عرب کو فضا سے فضا میں مار کرنے والے 280 جدید میزائل فراہم کرے گا۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے سعودی عرب کو فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائلوں کی فروخت کی منظوری کی تصدیق کی ہے جو بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے کسی خلیجی ملک سے اب تک ہتھیاروں کی سب سے بڑی ڈیل ہے۔
پینٹاگون کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ نے موجودہ اور مستقبل کے خطرات کو دیکھتے ہوئے سعودی عرب کی مدد کے لیے ہتھیاروں کی فروخت کی منظوری دی ہے۔
پینٹاگون نے اپنے بیان میں کہا، کہ سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فروخت امریکا کی خارجہ پالیسی اور دوست ممالک کی سکیورٹی کو بہتر بنانے کے ذریعے اس کی قومی سلامتی میں بھی معاون ہوگی۔ جو مشرق وسطیٰ میں سیاسی اور اقتصادی پیش رفت کے لیے ایک اہم قوت ہے۔''
میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکا کی جانب سے سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فروخت کی منظوری ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب امریکی صدر نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ یمن جنگ میں جارحانہ آپریشنز میں سعودی عرب کی مدد ختم کردیں گے جو ہتھیاروں کی فروخت سے متعلق بھی ہے۔
وہیں دوسری جانب بعض امریکی حلقوں نے سعودی عرب کے ساتھ ہتھیاروں کے اس سودے پر اعتراض کیا ہے تاہم امریکی وزارت خارجہ نے اپنی متعدد ٹویٹس میں اس کا یہ کہہ کر دفاع کیا کہ یہ ہتھیار زمینی حملے کے لیے نہیں ہیں اور میزائل صرف فضائی دفاع کے لیے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
- چین اپنے جوہری ہتھیاروں کو زیادہ تیزی سے بڑھا رہا ہے: امریکہ
- امریکہ نے پیگاسس اسپائی ویئر بنانے والے این ایس او گروپ کو بلیک لسٹ کیا
امریکی وزات خارجہ نے اس حوالے سے اپنے ایک بیان میں کہا، ''انتظامیہ نے یمن میں جنگ بندی کے خاتمے کے لیے سفارت کاری کی قیادت کرنے کا جو عہد کیا ہے، یہ سودا اس سے پوری طرح مطابقت رکھتا ہے۔ تاکہ سعودی عرب کے پاس ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے فضائی حملوں سے اپنے دفاع کے ذرائع موجود ہوں۔''
واضح رہے کہ سعودی عرب نے سنہ 2015 میں اپنے علاقائی اتحادیوں کے ساتھ مل کر یمن کے حوثی باغیوں کے خلاف فوجی کارروائیاں شروع کی تھیں اور اس کے تحت حوثیوں کے ٹھکانوں کومیزائلوں سے نشانہ بنانا شروع کیا تھا۔
سعودی عرب اور اس کے بعض مغربی اتحادیوں کا خیال ہے کہ حوثی یمن میں ایران کے سپورٹ کرنے کی وجہ سے جنگ لڑ رہے ہیں جبکہ تہران اس کی تردید کرتا رہا ہے۔ تقریباً چھ برس سے جاری اس جنگ کی وجہ سے یمن اس وقت دنیا کے بد ترین انسانی بحران سے دو چار ہے، جہاں تقریباً ڈھائی لاکھ افراد اب تک ہلاک ہو چکے ہیں۔