31 اگست کو امریکی فوجی انخلا سے قبل روس، افغانستان میں امریکی پالیسی کو مسلسل تنقید کا نشانہ بناتا رہا ہے۔
نئے تعلیمی سال کے آغاز کے موقع پر روس کے مشرقی شہر ولادی ووستوک میں نوعمر طلبا سے خطاب کرتے ہوئے روسی صدر نے کہا کہ کسی بھی ملک میں باہر سے کوئی چیز مسلط کرنا ناممکن ہے۔
روسی صدر کے مطابق امریکی فوج نے دو دہائیوں تک جنگ زدہ افغانستان میں اپنے اصول اپنی اقدار اور طرز زندگی رائج کرنے کی کوشش کی لیکن اس کا نتیجہ صرف سانحات کی صورت میں برآمد ہوا، اس کا نقصان صرف امریکا اور افغان سرزمین پر رہنے والوں کو ہی ہوا۔
پوتن نے بدھ کے روز کہا کہ 20 سالوں سے افغانستان میں امریکی فوج وہاں رہنے والے لوگوں کو مہذب بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر سانحہ اور نقصان ہوا۔ یہ نقصان دونوں کو ہوا۔
پوتن نے کہا کہ 'کسی بھی ملک میں باہر سے کچھ تھوپنا ناممکن ہے۔ اگر کوئی کسی کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہے تو اسے ان لوگوں کی تاریخ، ثقافت، فلسفہ زندگی کے بارے میں جاننا چاہیے اور ان کی روایات کا احترام کیا جانا چاہیے۔
- Afghanistan: افغانستان میں امریکہ کی بیس سالہ جنگ کا اختتام
- Joe Biden: افغانستان سے انخلا بہترین اور دانشمندانہ فیصلہ
- عالمی برادری کو افغانستان کو تنہا نہیں چھوڑنا چاہیے: شاہ محمود قریشی
واضح رہے کہ روس نے 10 سال تک افغانستان میں جنگ لڑی اور 1989 میں سوویت یونین کی فوجیں واپس چلی گئیں۔ گزشتہ کچھ برسوں سے روس ایک ثالث کی حیثیت سے افغانستان میں سفارتی کام شروع کیا ہے۔
اس سے قبل گزشتہ ہفتے پوتن نے کہا تھا کہ روس افغانستان میں مداخلت نہیں کرے گا اور اس نے ملک پر سوویت یونین کے انخلا کے بعد بہت کچھ سیکھا ہے۔
ولادیمیر پوتن نے مزید کہا کہ روس نئی کابل انتظامیہ کے بارے میں محتاط لیکن پرامید ہے اور وہ افغانستان کے معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے۔
وہیں، افغانستان میں امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ کے اختتام پر منگل کو وائٹ ہاؤس میں قوم سے خطاب کے دوران صدر جو بائیڈن نے انخلا کے اپنے فیصلے کا دفاع کیا اور اس مشن کو تاریخ کا سب سے بڑا فضائی انخلا قرار دیا۔ اسی کے ساتھ انہوں نے افغانستان سے انخلا کو امریکہ کے ذریعہ قوموں کی تعمیر کے دور کا خاتمہ بھی قرار دیا۔