ETV Bharat / entertainment

Mohammed Rafi Birth Anniversary گلوکار محمد رفیع کے سدا بہار نغمے آج بھی مقبول

author img

By

Published : Dec 25, 2022, 8:31 AM IST

ہندی سنیما کے مشہور و معروف گلوکار محمد رفیع کا یوم پیدائش ہے۔ محمد رفیع پنجاب کے کوٹلا سلطان سنگھ گاؤں میں 24 دسمبر 1924 کو پیدا ہوئے تھے۔محمد رفیع نے فلم انڈسٹری میں 30 سال سے زیادہ کام کیا۔ اس دوران انہوں نے ہر قسم کے گانے گائے۔ ان کے گائے ہوئے گانوں کو لوگ آج بھی گنگناتے ہیں۔ Mohammed Rafi Birth Place

گلوکار محمد رفیع کے سدا بہار نغمے آج بھی مقبول
گلوکار محمد رفیع کے سدا بہار نغمے آج بھی مقبول

ممبئی: ہندی فلموں کے مشہور ومعروف گلوکار محمد رفیع کو اس دنیا سے رخصت ہوئے تقریباً 42 سال ہو چکے ہیں، لیکن ان کے مداحوں کی تعداد میں کسی طرح آج بھی کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ محمد رفیع ایک ایسی شخصیت کے مالک تھے جنہیں خداداد صلاحیت حاصل تھی۔ انہوں نے ہر موقع کے نغمے گائے، لیکن خاص طور پر ان کو جذباتی، درد بھرے اور بھجن ومذہبی گیتوں پرعبور حاصل تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی ان کے ان نغموں کو پسند کیا جاتا ہے۔ یہ عام خیال ہے کہ وقت کی گرد میں ہر ستارہ اپنی چمک کھو دیتا ہے، لیکن محمد رفیع کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا ، تقریباً چار دہائیوں کے بعد بھی ان کے مداحوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے اور بھارت اور برصغیرہی نہیں دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی انہیں احترام سے یاد کئے جاتے ہیں اور سنے جاتے ہیں۔ محمد رفیع کے بارے میں بہت کم لوگوں کو پتہ ہوگاکہ انہوں نے جدوجہد کے دور میں اداکاری بھی کی ہے۔ فلم میلہ میں فقیر کے بھیس میں رفیع صاحب تھے۔ Singer Mohammed Rafi first Song

پنجاب کے کوٹلا سلطان سنگھ گاؤں میں 24 دسمبر 1924 کو ایک متوسط مسلم خاندان میں پیدا ہوئے محمد رفیع ایک فقیر کے نغموں کو سنا کرتے تھے، جس سے ان کے دل میں موسیقی کے تئیں ایک لگاؤ پیدا ہوگیا۔ رفیع کے بڑے بھائی حمید نے محمد رفیع کے دل میں موسیقی کے تئیں رجحان دیکھا ا اور انہیں اس راہ پر آگے بڑھانے میں ان کی حوصلہ افزائی کی۔ آواز کی دنیا کے بے تاج بادشاہ محمد رفیع کو گلوکاری کی تحریک ایک فقیر سے ملی تھی۔ لاہور میں محمد رفیع موسیقی کی تعلیم استاد عبدالواحد خان سے لینے لگے اور ساتھ ہی انہوں نے غلام علی خان سے کلاسیکی موسیقی بھی سیکھنی شروع کی۔ ایک بار حمید رفیع کو لے کر کے ایل سہگل کے موسیقی پروگرام میں گئے، لیکن بجلی نہ ہونے کی وجہ سے کے ایل سہگل نے گانے سے انکار کر دیا۔

حمید نے پروگرام کے کنوینر سے گزارش کی کہ وہ ان کے بھائی کو پروگرام میں گانے کا موقع دیں۔کنوینر کے راضی ہونے پر رفیع نے پہلی بار 13 سال کی عمر میں اپنا پہلا نغمہ اسٹیج پر پیش کیا۔ شائقین کے درمیان بیٹھے موسیقار شیام سندر کو ان کا گانا اچھا لگا اور انہوں نے رفیع کو ممبئی آنے کی دعوت دی۔ شیام سندر کی موسیقی کی ہدایت میں رفیع نے اپنا پہلا گانا ’سونيے نی ہیریے نی‘ ،زینت بیگم کے ساتھ ایک پنجابی فلم ’گل بلوچ‘كے لیے گایا۔ سال 1944 میں نوشاد کی موسیقی میں انہوں نے اپنا پہلا ہندی گانا ’ہندوستان کے ہم ہیں‘فلم ’پہلے آپ‘ کے لیے گایا۔ سال 1949 میں نوشاد کی موسیقی کی ہدایت میں فلم دلاری میں گائے گانے سهاني رات ڈھل چکی .. کے ذریعے ان پر کامیابی کے دروازے کھل گئے۔ دلیپ کمار، دیو آنند، شمي کپور، راجندر کمار، ششی کپور، راجکمارجیسے نامور ہیرو کی آواز کہے جانے والے رفیع نے اپنے طویل کریئر میں تقریباً 700 فلموں کے لیے 26000 سے بھی زیادہ گانے گائے۔

محمد رفیع فلم انڈسٹری میں اپنی خوش مزاجی کےلئے جانے جاتے تھے، لیکن ایک بار ان کی مشہور گلوکارہ لتا منگیشکر کے ساتھ ان بن ہو گئی ۔انہوں نے لتا منگیشکر کے ساتھ سینکڑوں گانے گائے تھے لیکن ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب رفیع نے ان سے بات چیت تک کرنی بند کر دی تھی۔ لتا منگیشکر گانوں پر رایلٹی کی حامی تھیں جبکہ رفیع نے کبھی بھی رایلٹی کا مطالبہ نہیں کیا۔ رفیع صاحب کا خیال تھا کہ ایک بار جب فلم سازوں نے گانے کے پیسے دے دیئے تو پھر رایلٹی کا کوئی مطلب نہیں ۔دونو ں کے درمیان تنازعہ اتنا بڑھا کہ محمد رفیع اور لتا منگیشکر کے درمیان بات چیت بھی بند ہو گئی اور دونوں نے ایک ساتھ گانا گانے سے انکار کر دیا، تاہم چار سال کے بعد اداکارہ نرگس کی کوشش سے دونوں نے ایک ساتھ ایک پروگرام میں دل پکارے گانا گایا۔ محمد رفیع نے ہندی فلموں کے علاوہ مراٹھی اور تیلگو فلموں کے لئے بھی گانے گائے۔ محمد رفیع کو اپنے کریئر میں چھ بار فلم فیئر ایوارڈ سےاور 1965 میں پدمشري ایوارڈ سے بھی نوازاگیا۔

یہ بھی پڑھیں: Mohammed Rafi Death Anniversary: موسیقی کی دنیا کے بے تاج بادشاہ محمد رفیع

رفیع صاحب اداکار امیتابھ بچن کے بہت بڑے پرستار تھے۔جبکہ انہیں فلمیں دیکھنے کا شوق نہیں تھا لیکن کبھی کبھی وہ فلم دیکھ لیا کرتے تھے۔ایک بار انہوں نے امیتابھ بچن کی فلم دیوار دیکھی تھی۔اس کے بعد ہی وہ متابھ کے بہت بڑے پرستار بن گئے۔ سال 1980 میں آئی فلم نصیب میں رفیع صاحب کو امیتابھ کے ساتھ ’’چل چل میرے بھائی‘‘گانا گانے کا موقع ملا،امیتابھ کے ساتھ اس گانے کو گانے کے بعد وہ بہت خوش ہوئے تھے۔امیتابھ کے علاوہ انہیں شمي کپور اور دھرمیندر کی فلمیں بھی بہت پسند آتی تھیں۔انہیں امیتابھ-دھرمیندر کی فلم شعلے بہت بے حد پسند تھی اور انہوں نے اسے تین بار دیکھا تھا۔ 30 جولائی 1980 کوفلم ’آس پاس‘کے گانے ’’شام کیوں اداس ہے دوست‘‘ مکمل کرنے کے بعد جب رفیع نے لکشمی کانت پيارےلال سے کہا ’کیا میں جا سکتا ہوں؟‘ جسے سن کر وہ حیران ہوگئے، کیونکہ اس سے پہلے رفیع نے ان سے کبھی اس طرح اجازت نہیں مانگی تھی۔اگلے دن 31 جولائی 1980 کو انہیں دل کا دورہ پڑا اور وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔

یواین آئی

ممبئی: ہندی فلموں کے مشہور ومعروف گلوکار محمد رفیع کو اس دنیا سے رخصت ہوئے تقریباً 42 سال ہو چکے ہیں، لیکن ان کے مداحوں کی تعداد میں کسی طرح آج بھی کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ محمد رفیع ایک ایسی شخصیت کے مالک تھے جنہیں خداداد صلاحیت حاصل تھی۔ انہوں نے ہر موقع کے نغمے گائے، لیکن خاص طور پر ان کو جذباتی، درد بھرے اور بھجن ومذہبی گیتوں پرعبور حاصل تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی ان کے ان نغموں کو پسند کیا جاتا ہے۔ یہ عام خیال ہے کہ وقت کی گرد میں ہر ستارہ اپنی چمک کھو دیتا ہے، لیکن محمد رفیع کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا ، تقریباً چار دہائیوں کے بعد بھی ان کے مداحوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے اور بھارت اور برصغیرہی نہیں دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی انہیں احترام سے یاد کئے جاتے ہیں اور سنے جاتے ہیں۔ محمد رفیع کے بارے میں بہت کم لوگوں کو پتہ ہوگاکہ انہوں نے جدوجہد کے دور میں اداکاری بھی کی ہے۔ فلم میلہ میں فقیر کے بھیس میں رفیع صاحب تھے۔ Singer Mohammed Rafi first Song

پنجاب کے کوٹلا سلطان سنگھ گاؤں میں 24 دسمبر 1924 کو ایک متوسط مسلم خاندان میں پیدا ہوئے محمد رفیع ایک فقیر کے نغموں کو سنا کرتے تھے، جس سے ان کے دل میں موسیقی کے تئیں ایک لگاؤ پیدا ہوگیا۔ رفیع کے بڑے بھائی حمید نے محمد رفیع کے دل میں موسیقی کے تئیں رجحان دیکھا ا اور انہیں اس راہ پر آگے بڑھانے میں ان کی حوصلہ افزائی کی۔ آواز کی دنیا کے بے تاج بادشاہ محمد رفیع کو گلوکاری کی تحریک ایک فقیر سے ملی تھی۔ لاہور میں محمد رفیع موسیقی کی تعلیم استاد عبدالواحد خان سے لینے لگے اور ساتھ ہی انہوں نے غلام علی خان سے کلاسیکی موسیقی بھی سیکھنی شروع کی۔ ایک بار حمید رفیع کو لے کر کے ایل سہگل کے موسیقی پروگرام میں گئے، لیکن بجلی نہ ہونے کی وجہ سے کے ایل سہگل نے گانے سے انکار کر دیا۔

حمید نے پروگرام کے کنوینر سے گزارش کی کہ وہ ان کے بھائی کو پروگرام میں گانے کا موقع دیں۔کنوینر کے راضی ہونے پر رفیع نے پہلی بار 13 سال کی عمر میں اپنا پہلا نغمہ اسٹیج پر پیش کیا۔ شائقین کے درمیان بیٹھے موسیقار شیام سندر کو ان کا گانا اچھا لگا اور انہوں نے رفیع کو ممبئی آنے کی دعوت دی۔ شیام سندر کی موسیقی کی ہدایت میں رفیع نے اپنا پہلا گانا ’سونيے نی ہیریے نی‘ ،زینت بیگم کے ساتھ ایک پنجابی فلم ’گل بلوچ‘كے لیے گایا۔ سال 1944 میں نوشاد کی موسیقی میں انہوں نے اپنا پہلا ہندی گانا ’ہندوستان کے ہم ہیں‘فلم ’پہلے آپ‘ کے لیے گایا۔ سال 1949 میں نوشاد کی موسیقی کی ہدایت میں فلم دلاری میں گائے گانے سهاني رات ڈھل چکی .. کے ذریعے ان پر کامیابی کے دروازے کھل گئے۔ دلیپ کمار، دیو آنند، شمي کپور، راجندر کمار، ششی کپور، راجکمارجیسے نامور ہیرو کی آواز کہے جانے والے رفیع نے اپنے طویل کریئر میں تقریباً 700 فلموں کے لیے 26000 سے بھی زیادہ گانے گائے۔

محمد رفیع فلم انڈسٹری میں اپنی خوش مزاجی کےلئے جانے جاتے تھے، لیکن ایک بار ان کی مشہور گلوکارہ لتا منگیشکر کے ساتھ ان بن ہو گئی ۔انہوں نے لتا منگیشکر کے ساتھ سینکڑوں گانے گائے تھے لیکن ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب رفیع نے ان سے بات چیت تک کرنی بند کر دی تھی۔ لتا منگیشکر گانوں پر رایلٹی کی حامی تھیں جبکہ رفیع نے کبھی بھی رایلٹی کا مطالبہ نہیں کیا۔ رفیع صاحب کا خیال تھا کہ ایک بار جب فلم سازوں نے گانے کے پیسے دے دیئے تو پھر رایلٹی کا کوئی مطلب نہیں ۔دونو ں کے درمیان تنازعہ اتنا بڑھا کہ محمد رفیع اور لتا منگیشکر کے درمیان بات چیت بھی بند ہو گئی اور دونوں نے ایک ساتھ گانا گانے سے انکار کر دیا، تاہم چار سال کے بعد اداکارہ نرگس کی کوشش سے دونوں نے ایک ساتھ ایک پروگرام میں دل پکارے گانا گایا۔ محمد رفیع نے ہندی فلموں کے علاوہ مراٹھی اور تیلگو فلموں کے لئے بھی گانے گائے۔ محمد رفیع کو اپنے کریئر میں چھ بار فلم فیئر ایوارڈ سےاور 1965 میں پدمشري ایوارڈ سے بھی نوازاگیا۔

یہ بھی پڑھیں: Mohammed Rafi Death Anniversary: موسیقی کی دنیا کے بے تاج بادشاہ محمد رفیع

رفیع صاحب اداکار امیتابھ بچن کے بہت بڑے پرستار تھے۔جبکہ انہیں فلمیں دیکھنے کا شوق نہیں تھا لیکن کبھی کبھی وہ فلم دیکھ لیا کرتے تھے۔ایک بار انہوں نے امیتابھ بچن کی فلم دیوار دیکھی تھی۔اس کے بعد ہی وہ متابھ کے بہت بڑے پرستار بن گئے۔ سال 1980 میں آئی فلم نصیب میں رفیع صاحب کو امیتابھ کے ساتھ ’’چل چل میرے بھائی‘‘گانا گانے کا موقع ملا،امیتابھ کے ساتھ اس گانے کو گانے کے بعد وہ بہت خوش ہوئے تھے۔امیتابھ کے علاوہ انہیں شمي کپور اور دھرمیندر کی فلمیں بھی بہت پسند آتی تھیں۔انہیں امیتابھ-دھرمیندر کی فلم شعلے بہت بے حد پسند تھی اور انہوں نے اسے تین بار دیکھا تھا۔ 30 جولائی 1980 کوفلم ’آس پاس‘کے گانے ’’شام کیوں اداس ہے دوست‘‘ مکمل کرنے کے بعد جب رفیع نے لکشمی کانت پيارےلال سے کہا ’کیا میں جا سکتا ہوں؟‘ جسے سن کر وہ حیران ہوگئے، کیونکہ اس سے پہلے رفیع نے ان سے کبھی اس طرح اجازت نہیں مانگی تھی۔اگلے دن 31 جولائی 1980 کو انہیں دل کا دورہ پڑا اور وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔

یواین آئی

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.