موسم بہار کی آمد پر منایا جانے والا رنگوں کا تہوار ہولی، ہندو مذہب کے پیروکار پورے جوش وخروش کے ساتھ مناتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ہندوؤں کے مذہبی شہر بنارس میں دور دراز علاقوں سے بھی عوام آتے ہیں اور بنارس کے جشن ہولی میں شامل ہوتے ہیں۔
اب جبکہ ہولی بالکل قریب ہے کالج اور یونیورسٹیز میں طلباء و طالبات ہولی کے جشن میں ڈوبنے کے لیے تیار ہیں، ایسے میں مہلک ترین کورونا وائرس نے ہولی کے رنگ کو بھنگ کردیا ہے۔
ہولی میں استعمال ہونے والی بیشتر اشیاء چین کی ہوتی ہیں۔ مثلا اس میں عبیر، لال گلال رنگ، پچکاریاں غبارے سمیت دیگر چیزیں شامل ہیں۔
اب عوام چین سے پھیلنے والے کورونا وائرس کے ڈر سے چین کی مصنوعات سے بھی کنارہ کشی اختیار کر رہے ہیں جو ہولی کے جشن پر زبردست اثر انداز ہوگا۔
ہولی کے سامان فروخت کرنے والے کاروباریوں نے کورونا وائرس کے اثر کی بات کہی اور عوام نے بھی اپنے ردعمل کا اظہار کیا۔
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر پی ڈی مشرا نے بتایا کہ 'ہولی کے موقع پر چین کی مصنوعات کو استعمال کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔'
انہوں نے خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ 'ہو سکتا ہے کہ چین کی مصنوعات ایسے شخص نے بنائی ہو جو کورونا وائرس کا مریض رہا ہو ایسے میں بہتر ہے کہ عوام چین کے سامان کو ستعمال کرنے سے پرہیز کریں۔'
انہوں نے بتایا کہ 'ہولی کے موقع پر پر رنگ چہرے پر نہ لگائیں، بھیڑ بھاڑ والے علاقوں میں نہ جائیں، بخار، سردی، زکام، نزلہ کی شکایت ہو تو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ ان تمام تدبیروں کے ذریعے اس مہلک بیماری سے بچا جاسکتا ہے۔'