ETV Bharat / city

کشمیر: دستکاروں کا یہ استحصال کیوں؟

کشمیر میں دستکاری کی صنعت اتنی ہی پرانی ہے جتنی تقریباً یہاں کی اسلامی تاریخ ہے۔ 1372 عیسوی میں جب امیر کبیر میر سید علی ہمدانی (رح) ہمدان شہر سے اسلام کی اشاعت کے لیے کشمیر آئے تھے تو انہوں نے نو مسلم آبادی کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے لیے دستکاری کی جانب راغب کردیا اور یوں یہاں پر دستکاری صنعت کی داغ بیل پڑی۔

دستکاروں سے یہ استحصال کیوں
دستکاروں سے یہ استحصال کیوں
author img

By

Published : Sep 7, 2021, 4:16 PM IST

Updated : Sep 7, 2021, 5:37 PM IST

کشمیر کی گھریلو دستکاریوں سے جڑے افراد جہاں برسوں پہلے خوشحال زندگی گزار رہے تھے وہیں آج کی تاریخ میں یہ اپنی مالی حالت پر شکوہ کناہ ہیں۔ پشمینہ، شال بافی، سوزنی اور دیگر دستکاریوں کے سالانہ کاروبار میں گزشتہ کئی برس سے تسلسل کے ساتھ گراوٹ آئی ہے، جس کی وجہ سے نہ صرف دستکاری صنعت سے جڑے بڑے کاروباریوں کی آمدنی پر منفی اثر پڑا ہے بلکہ یومیہ اجرت پر کام کررہے یہ کاریگر مالی لحاظ سے بڑی مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔

دستکاروں سے یہ استحصال کیوں؟

بتایا جارہا ہے کہ یہ دستکار پہلے ہی کم اجرت پاکر درمیانہ داروں کے استحصال کا شکار ہوتے آرہے ہیں۔ کاریگر کہتے ہیں برسوں سے قلیل یومیہ اجرت پر کام کرتے ہوئے مہنگائی کے اس دور میں گھر کا گزارا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بنتا جارہا ہے۔


پشمینہ شال پر سوئی سے کشیدہ کاری کئی کاریگروں کا ذریعۂ معاش رہا۔ اس مشکل پیٹرن کی بنائی کرنے کے لیے اون کے دھاگے کا استعمال کیا جاتا ہے۔ پشمینہ کے اون کی روایتی کتائی بھی یہاں کی خواتین کرتی ہیں۔ وہیں شال پر مختلف قسم کے باریک کام بھی سوئی سے ہی یہ کاریگر بڑی محنت سے انجام دیتے ہیں۔ جس میں انہیں تیار کرنے میں مہینوں لگ جاتے ہیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ محنت کے حساب سے انہیں مکمل اجرت نہیں مل پاتی ہے۔

ان کاریگروں کے ساتھ ہورہی اس ناانصافی کے لئے نہ صرف بڑے کاروباری بلکہ متعلقہ محکمہ بھی برابر کا ذمہ دار ہے کیوں کہ دہائیوں سے ان کاریگروں کی اجرت بڑھانے کی طرف کوئی خاص دھیان نہیں دیا گیا ہے۔ جس کے نتیجے میں اکثر ماہر کاریگروں نے اس کام سے ہی کنارہ کشی اختیار کی ہے اور نئی نسل بھی ان قدیم دستکاریوں کی طرف مائل نہیں ہو رہی ہیں۔

محکمہٰ ہینڈی کرافٹس اینڈ ہینڈی لوم دستکاری شعبے کو نئی جہت دینے کے لیے کئی محاذ پر کام کرنے کا دعویٰ تو کررہا ہے وہیں کاریگروں اور بنکروں کو خاص اسکیموں کے دائرے میں لاکر فائدہ دینے کے بلند وبانگ دعوے بھی کررہا ہے۔ لیکن زمینی سطح پر اس کے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آرہے ہیں۔


مزید پڑھیں:وادی کشمیر کی دستکاری صنعت میں خواتین کا کردار


بہرحال ضرورت اس بات کی ہے کہ انتظامیہ خاص کر متعلقہ محکمہ نچلی سطح کے ان کاریگروں کی آمدنی بڑھانے کے لیے کاغذی گھوڑے دوڑائے بغیر عملی اقدامات اٹھائے ورنہ اب بچی کھچی قدیم دستکاریوں کے وجود کو ختم ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔

کشمیر کی گھریلو دستکاریوں سے جڑے افراد جہاں برسوں پہلے خوشحال زندگی گزار رہے تھے وہیں آج کی تاریخ میں یہ اپنی مالی حالت پر شکوہ کناہ ہیں۔ پشمینہ، شال بافی، سوزنی اور دیگر دستکاریوں کے سالانہ کاروبار میں گزشتہ کئی برس سے تسلسل کے ساتھ گراوٹ آئی ہے، جس کی وجہ سے نہ صرف دستکاری صنعت سے جڑے بڑے کاروباریوں کی آمدنی پر منفی اثر پڑا ہے بلکہ یومیہ اجرت پر کام کررہے یہ کاریگر مالی لحاظ سے بڑی مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔

دستکاروں سے یہ استحصال کیوں؟

بتایا جارہا ہے کہ یہ دستکار پہلے ہی کم اجرت پاکر درمیانہ داروں کے استحصال کا شکار ہوتے آرہے ہیں۔ کاریگر کہتے ہیں برسوں سے قلیل یومیہ اجرت پر کام کرتے ہوئے مہنگائی کے اس دور میں گھر کا گزارا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بنتا جارہا ہے۔


پشمینہ شال پر سوئی سے کشیدہ کاری کئی کاریگروں کا ذریعۂ معاش رہا۔ اس مشکل پیٹرن کی بنائی کرنے کے لیے اون کے دھاگے کا استعمال کیا جاتا ہے۔ پشمینہ کے اون کی روایتی کتائی بھی یہاں کی خواتین کرتی ہیں۔ وہیں شال پر مختلف قسم کے باریک کام بھی سوئی سے ہی یہ کاریگر بڑی محنت سے انجام دیتے ہیں۔ جس میں انہیں تیار کرنے میں مہینوں لگ جاتے ہیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ محنت کے حساب سے انہیں مکمل اجرت نہیں مل پاتی ہے۔

ان کاریگروں کے ساتھ ہورہی اس ناانصافی کے لئے نہ صرف بڑے کاروباری بلکہ متعلقہ محکمہ بھی برابر کا ذمہ دار ہے کیوں کہ دہائیوں سے ان کاریگروں کی اجرت بڑھانے کی طرف کوئی خاص دھیان نہیں دیا گیا ہے۔ جس کے نتیجے میں اکثر ماہر کاریگروں نے اس کام سے ہی کنارہ کشی اختیار کی ہے اور نئی نسل بھی ان قدیم دستکاریوں کی طرف مائل نہیں ہو رہی ہیں۔

محکمہٰ ہینڈی کرافٹس اینڈ ہینڈی لوم دستکاری شعبے کو نئی جہت دینے کے لیے کئی محاذ پر کام کرنے کا دعویٰ تو کررہا ہے وہیں کاریگروں اور بنکروں کو خاص اسکیموں کے دائرے میں لاکر فائدہ دینے کے بلند وبانگ دعوے بھی کررہا ہے۔ لیکن زمینی سطح پر اس کے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آرہے ہیں۔


مزید پڑھیں:وادی کشمیر کی دستکاری صنعت میں خواتین کا کردار


بہرحال ضرورت اس بات کی ہے کہ انتظامیہ خاص کر متعلقہ محکمہ نچلی سطح کے ان کاریگروں کی آمدنی بڑھانے کے لیے کاغذی گھوڑے دوڑائے بغیر عملی اقدامات اٹھائے ورنہ اب بچی کھچی قدیم دستکاریوں کے وجود کو ختم ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔

Last Updated : Sep 7, 2021, 5:37 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.