وادی کشمیر کا دریائے جہلم Jhelum River of Kashmir Valley ایک زمانے میں 'وینس آف ایسٹ' Venice of East کے نام سے معروف تھا۔ یہ دریا آمد ورفت کا بھی ایک بڑا ذریعہ تھا۔
کشتیاں اور شکارہ ہی دریائے جہلم کی رونق ہیں قدیم دور میں آبی راستے، مسافروں اور مال کی آمد ورفت کے ساتھ ساتھ شکارہ والوں اور کشتی بانوں کے لیے اہم روزگار کے وسائل تھے۔ لیکن پھر ترقی ہوئی اور گاڑیاں ان کشتیوں کا متبادل بنیں، جس سے جہلم کے شکارہ والے روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے اور شکارہ کی تعداد قریبا ختم ہی ہوگئی۔ اس دوران دریائے جہلم کے اوپر سات پل بھی تعمیر ہوئے جس سے شہر کے رابطے بڑھے، تاہم اس دریا میں آج بھی چند شکارہ والے ہیں جو لوگوں کو دریاؤں کا سفر کراکر اپنی روزی روٹی کما رہے ہیں۔ ای ٹی وی بھارت سے ایک شہری زاہد احمد خان نے بتایا کہ جہلم میں کشتیاں اور شکارہ ہزاروں کی تعداد میں چلا کرتی تھیں، لیکن ترقی کے ساتھ ہی ان کی تعداد کم ہوتی گئی۔ اس تاریخی اور یادگار زمانے کی یادیں اب یہی دو شکارے والے تازہ رکھے ہوئے ہیں جو شہر خاص کے حبہ کدل کے نزدیک لوگوں کو ایک جانب سے دوسری جانب پہنچاتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ شکارہ سے مقامی و بیرونی سیاح شمال و جنوب کا سفر کرتے تھے۔ شکارہ والے کہتے ہیں کہ بیرونی سیاحوں کے لیے جہلم اس زمانے میں انتا ہی مشہور تھا جتنا آج ڈل جھیل ہے۔ شکارہ والوں سے جہلم گندگی سے محفوظ تھا، اس کی رونق بحال تھی۔ لیکن وہ زمانہ واپس آنے کی ان کو کوئی امید نہیں ہے۔