رمضان المبارک کی آمد آمد ہے۔ اس مبارک ماہ میں جہاں مسلمان اپنے رب کو راضی کرنے کے لیے صدقات، زکوۃ سمیت دیگر عبادات کو بخوبی انجام دیتے ہیں تو وہیں، اسلامی روایات کی نظیر بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔
ان روایات اور کہانیوں کے پس منظر کی معلومات بھی کسی خزانہ سے کم نہیں۔ کسی روایت کا تعلق مذہبی عقائد سے ہے تو کوئی کسی سماجی و ثقافتی ورثے کا حصہ ہے۔ انہیں میں سے ایک روایت سحری کے لیے روزہ داروں کو بیدار کرنے والے سحری خواں کی ہے۔ بھارت سمیت دنیا بھر میں سحری خواں کی روایت آج بھی برقرار ہے۔
نئی ایجادات نے گرچہ سحری میں جگانے والوں کے کام کو مزید آسان کردیا ہے۔ تاہم ماہ صیام کے آغاز کے ساتھ ہی شہروں میں سحری کے لیے جگانے کی روایت آج بھی باقی ہے۔ یہ روایت کافی قدیم ہے۔ زمانہ قدیم کے طرز پر وادی کشمیر میں ڈھول، تاشے اور دیگر چیزیں پیٹ کر لوگوں کو سحری کے لیے جگانے کا سلسلہ جاری ہے۔ مزید یہ طریقہ وادی کے ہر ایک دیہات اور ہر قصبہ میں آج بھی برقرار ہے۔
وہی شب قدر کے موقع پر یہ ڈھول بجانے والے علاقے کی مختلف زیارتوں پر جا کر حاضری دیتے ہیں اور وہاں پر امت مسلمہ کے لیے دعائیں بھی کی جاتی ہے۔ اور شب قدر کی دورانی شب میں یہی سحری خواں گھر گھر جاکر دعائیں دیتے ہیں جس کے عوض میں لوگ انہیں کچھ پیسے یا پھر کچھ اور ضروریات کی چیزیں دیتے ہیں۔