ETV Bharat / city

An Anonymous Kashmiri Soap Makers: ایک گمنام صابن بنانے والے کاریگر کے نام اور کام کو زندہ رکھنے والے عبدالرشید لون

author img

By

Published : Jan 17, 2022, 9:05 PM IST

شہرسرینگر کے خانقاہ علاقے میں ایک کشمیری صابن بنانے والے حاجی غلام رسول Kashmiri Soap Maker Haj Ghulam Rasool کے نام اور کام کو ان کے عزیزعبدالرشید لون نے زندہ رکھا ہے، عبدالرشید لون کا کہنا ہے کہ 'حاجی غلام رسول کی دکان کا کوئی نام نہیں تھا۔ An Anonymous Kashmiri Soap Makers اُن کو کشمیری صابن Kashmiri Soap بنانے اور بیچنے کا بہت شوق تھا اور انہوں نے یہ کام تقریباً 80 برس کیا۔ میں نے صرف دکان کو نام دیا اور صابن کی قسموں میں اضافہ کیا ہے'۔

ایک گمنام صابن بنانے والے کاریگر کے نام اور کام کو زندہ رکھنے والے عبدالرشید لون
ایک گمنام صابن بنانے والے کاریگر کے نام اور کام کو زندہ رکھنے والے عبدالرشید لون

کسی زمانے میں سرینگر شہر کے خانقا علاقے میں ایک مشہور صابن بنانے والے رہا کرتے تھے، جن کا نام حاجی غلام رسول Famous Soap Maker Haji Ghulam Rasool تھا۔ سنہ 1995 میں حاجی غلام رسول کے انتقال سے چند برس قبل اُن کے ایک دور کے رشتہ دار عبدالرشید لون نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ حاجی غلام رسول کا نام زندہ رکھیں گے۔ آج 27 برس بعد بھی لون حاجی غلام رسول سے کیے وعدے پر قائم و دائم ہیں اور کشمیری صابن بنا رہے ہیں۔

ایک گمنام صابن بنانے والے کاریگر کے نام اور کام کو زندہ رکھنے والے عبدالرشید لون

لون کہتے ہیں کہ حاجی غلام رسول نے ایک دن کہا تھا کہ 'اُن کے بعد کوئی کشمیری صابن بنانے والا نہیں ہے، ان کے بعد یہ کاروبار ختم ہوجائے گا۔ حاجی غلام رسول کے اس جملے سے عبدالرشید لون کافی دُکھ ہوا اور حاجی غلام رسول کی زندگی کے آخری ایام میں انہوں نے ان سے وعدہ کیا کہ وہ ان کا نام ہمیشہ زندہ رکھیں گا۔

لون کی عمر اُس وقت صرف 20 برس تھی، جب انہوں نے حاجی غلام رسول کی بے نام دکان سے ملحق ایک سائیکل مرمت کی دکان کھولی۔ حاجی غلام رسول کے انتقال کے فوراً بعد جموں و کشمیر انتظامیہ نے سڑک وسیع کرنے کے لیے کئی دکانیں گرائیں جن میں حاجی غلام رسول کی بھی دکان گرادی گئی۔ اسی سال، عبدالرشید لون نے اسی جگہ، اپنی سائیکل مرمت کی دکان کے ساتھ صابن کی دکان کھولی اور وعدے کے مطابق حاجی غلام رسول کے کام کو دوبارہ زندہ کیا۔

عبدالرشید لون کا کہنا ہے کہ 'حاجی غلام رسول کی دکان کا کوئی نام نہیں تھا۔ اُن کو کشمیری صابن بنانے اور بیچنے کا بہت شوق تھا اور انہوں نے یہ کام تقریباً 80 برس کیا۔ میں نے صرف دکان کو نام دیا اور صابن کی قسموں میں اضافہ کیا'۔

جب عبدالرشید لون نے حاجی غلام رسول کا کاروبار سنبھالا تھا، تب وہاں صرف کشمیری صابن ہی فروخت کی جاتی تھیں، تاہم اب بیرون ریاست سے لائے گئے صابن بھی یہاں فروخت کیے جاتے ہیں۔ دکان کی دہلیز پر سفید رنگ کے کشمیری صابن کی دو مستطیل سلیب ہیں، جو لون اپنے 30 برس کے بیٹے کے ساتھ بناتے ہیں۔

اگرچہ یہ دکان کافی پرانی ہے، لیکن کچھ لوگ خاص طور پر آج بھی یہ صابن خریدنے یہاں آتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ 'میں یہی صابن بیچتا ہوں، جو کہ نمدہ بنانے میں استعمال ہوتا ہے اور دوسرا صابن جو کپڑے دھونے میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ صابن خشکی کو دور کرنے میں بھی کافی کارآمد ہے۔
مقامی نمدہ دستکار لون سے صابن خریدتے ہیں کیونکہ یہ قالین بنانے کے دوران گوند کا استعمال کرتے ہیں۔ کاریگر نمدے کی بنیاد پر پیٹرن کا خاکہ بناتے ہیں۔ صابن کا استعمال بنیاد بنانے کے کام آتا ہے۔
لون ایک بار میں تقریبا 200 کلو گرام صابن تیار کر لیتے ہیں جو اُن کی دکان میں کم از کم 15 دنوں تک رہتا ہے، جب تک کہ گاہک پورا اسٹاک نہ لے جائیں۔

اُن کا کہنا ہے کہ 'شروع میں میں ایک کلو صابن 25 روپے میں فروخت کرتا تھا لیکن اب مہنگائی کے سبب فی کلو صابن 100 روپے میں فروخت کرتے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ کشمیری صابن میں دیگر صابن کی طرح چربی کا استعمال نہیں ہوتا بس تیل و غیر نقصان دہ کیمیکل کا استعمال ہوتا ہے۔ اسلیے جب تیل کی قیمت بڑھتی ہے تو اس سے صابن کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے۔



مزید پڑھیں: 'Historical importance Of 'Thong e Masjid: سرینگر کی قدیم "تھونگہ مسجد" کا تاریخی پس منظر


عبدالرشید لون اس بات سے خوش ہیں کہ اب اُن کا بیٹا بھی یہ کام سیکھ گیا ہے اور اُن کو یقین ہے کہ رسول کا کاروبار لون کے بعد ان کا بیٹا جاری رکھے گا۔
دکان پر صابن خریدنے آئے ایک صارف محمد امین کا کہنا تھا کہ'یہ بہترین صابن ہے، اس کا استعمال چمڑے کی صفائی کرنے والے، نمدہ بنانے والے اور قالیں بنانے والوں کے ساتھ ساتھ ہر خاص و عام استعمال کرتے ہیں۔

کسی زمانے میں سرینگر شہر کے خانقا علاقے میں ایک مشہور صابن بنانے والے رہا کرتے تھے، جن کا نام حاجی غلام رسول Famous Soap Maker Haji Ghulam Rasool تھا۔ سنہ 1995 میں حاجی غلام رسول کے انتقال سے چند برس قبل اُن کے ایک دور کے رشتہ دار عبدالرشید لون نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ حاجی غلام رسول کا نام زندہ رکھیں گے۔ آج 27 برس بعد بھی لون حاجی غلام رسول سے کیے وعدے پر قائم و دائم ہیں اور کشمیری صابن بنا رہے ہیں۔

ایک گمنام صابن بنانے والے کاریگر کے نام اور کام کو زندہ رکھنے والے عبدالرشید لون

لون کہتے ہیں کہ حاجی غلام رسول نے ایک دن کہا تھا کہ 'اُن کے بعد کوئی کشمیری صابن بنانے والا نہیں ہے، ان کے بعد یہ کاروبار ختم ہوجائے گا۔ حاجی غلام رسول کے اس جملے سے عبدالرشید لون کافی دُکھ ہوا اور حاجی غلام رسول کی زندگی کے آخری ایام میں انہوں نے ان سے وعدہ کیا کہ وہ ان کا نام ہمیشہ زندہ رکھیں گا۔

لون کی عمر اُس وقت صرف 20 برس تھی، جب انہوں نے حاجی غلام رسول کی بے نام دکان سے ملحق ایک سائیکل مرمت کی دکان کھولی۔ حاجی غلام رسول کے انتقال کے فوراً بعد جموں و کشمیر انتظامیہ نے سڑک وسیع کرنے کے لیے کئی دکانیں گرائیں جن میں حاجی غلام رسول کی بھی دکان گرادی گئی۔ اسی سال، عبدالرشید لون نے اسی جگہ، اپنی سائیکل مرمت کی دکان کے ساتھ صابن کی دکان کھولی اور وعدے کے مطابق حاجی غلام رسول کے کام کو دوبارہ زندہ کیا۔

عبدالرشید لون کا کہنا ہے کہ 'حاجی غلام رسول کی دکان کا کوئی نام نہیں تھا۔ اُن کو کشمیری صابن بنانے اور بیچنے کا بہت شوق تھا اور انہوں نے یہ کام تقریباً 80 برس کیا۔ میں نے صرف دکان کو نام دیا اور صابن کی قسموں میں اضافہ کیا'۔

جب عبدالرشید لون نے حاجی غلام رسول کا کاروبار سنبھالا تھا، تب وہاں صرف کشمیری صابن ہی فروخت کی جاتی تھیں، تاہم اب بیرون ریاست سے لائے گئے صابن بھی یہاں فروخت کیے جاتے ہیں۔ دکان کی دہلیز پر سفید رنگ کے کشمیری صابن کی دو مستطیل سلیب ہیں، جو لون اپنے 30 برس کے بیٹے کے ساتھ بناتے ہیں۔

اگرچہ یہ دکان کافی پرانی ہے، لیکن کچھ لوگ خاص طور پر آج بھی یہ صابن خریدنے یہاں آتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ 'میں یہی صابن بیچتا ہوں، جو کہ نمدہ بنانے میں استعمال ہوتا ہے اور دوسرا صابن جو کپڑے دھونے میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ صابن خشکی کو دور کرنے میں بھی کافی کارآمد ہے۔
مقامی نمدہ دستکار لون سے صابن خریدتے ہیں کیونکہ یہ قالین بنانے کے دوران گوند کا استعمال کرتے ہیں۔ کاریگر نمدے کی بنیاد پر پیٹرن کا خاکہ بناتے ہیں۔ صابن کا استعمال بنیاد بنانے کے کام آتا ہے۔
لون ایک بار میں تقریبا 200 کلو گرام صابن تیار کر لیتے ہیں جو اُن کی دکان میں کم از کم 15 دنوں تک رہتا ہے، جب تک کہ گاہک پورا اسٹاک نہ لے جائیں۔

اُن کا کہنا ہے کہ 'شروع میں میں ایک کلو صابن 25 روپے میں فروخت کرتا تھا لیکن اب مہنگائی کے سبب فی کلو صابن 100 روپے میں فروخت کرتے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ کشمیری صابن میں دیگر صابن کی طرح چربی کا استعمال نہیں ہوتا بس تیل و غیر نقصان دہ کیمیکل کا استعمال ہوتا ہے۔ اسلیے جب تیل کی قیمت بڑھتی ہے تو اس سے صابن کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے۔



مزید پڑھیں: 'Historical importance Of 'Thong e Masjid: سرینگر کی قدیم "تھونگہ مسجد" کا تاریخی پس منظر


عبدالرشید لون اس بات سے خوش ہیں کہ اب اُن کا بیٹا بھی یہ کام سیکھ گیا ہے اور اُن کو یقین ہے کہ رسول کا کاروبار لون کے بعد ان کا بیٹا جاری رکھے گا۔
دکان پر صابن خریدنے آئے ایک صارف محمد امین کا کہنا تھا کہ'یہ بہترین صابن ہے، اس کا استعمال چمڑے کی صفائی کرنے والے، نمدہ بنانے والے اور قالیں بنانے والوں کے ساتھ ساتھ ہر خاص و عام استعمال کرتے ہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.