پٹنہ: چھ دسمبر کی تاریخ جب جب آئے گی ہم اس دن کو یوم سیاہ کے نام سے یاد کریں گے۔ کیونکہ چھ دسمبر 1992 کو کارسیوک اور بجرنگ دل کے ذریعہ بابری مسجد کی شہادت Babri Masjid Demolition 6 December 1992 کے ساتھ ہی ہندوستان کے چہرے پر ایک بدنما داغ پڑ گیا ہے جسے تاریخ میں کبھی بھلایا نہیں جا سکے گا۔ یہ ہندوستان تمام مذاہب کے ماننے والے لوگوں کا ہے۔ یہ اس ہندوستان کی خوبصورتی ہے اور آئین نے تمام مذاہب کے رہنے والے اور اس کی عبادت گاہ کی حفاظت کی ذمہ داری کی ضمانت دی ہے، باوجود اس کے اگر کوئی زبردستی کسی کی عبادت گاہ کو شہید کرتا ہے تو گویا وہ ہندوستان کی آئین کے خلاف کام کر رہا ہے، بابری مسجد کی شہادت اسی کی ایک مثال ہے۔
مذکورہ باتیں بھاکپا مالے کے ریاستی جنرل سکریٹری کنال نے آج بابری مسجد کی شہادت پر نکالے گئے احتجاجی جلوس CPI-M held a rally on the anniversary of Babri Masjid سے خطاب کرتے ہوئے کہی انہوں نے کہا کہ مسلمان اسی ملک کے شہری ہیں، ملک کی آزادی میں انہوں نے اپنے بے مثال قربانیاں پیش کی ہیں، اس ملک پر جتنا حق ہندوؤں اور دوسرے مذاہب کا ہے اتنا ہی مسلم بھائیوں کا ہے. مگر آج انہیں شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، فرقہ پرستوں کے ذریعہ ان کے خلاف طرح طرح کے پروپیگنڈہ کئے جاتے ہیں، ہم اسے قطعی برداشت نہیں کر سکتے۔
مزید پڑھیں:
- Babri Masjid Demolition: بابری مسجد کی شہادت کو یوم یادگار کے طور پر منایا گیا
- History Of Babri Masjid: بابری مسجد تاریخ کے آئینے میں
سی پی آئی کے رکن شیاما پرساد نے کہا کہ CPIM on Demolition Babri Masjid in Patna بابری مسجد کی شہادت ہندوستان کے لئے ایک سیاہ دن تھا، ملک میں اقلیتوں کو دبانے کے لیے ان کی عبادت گاہوں پر حملے ہو رہے ہیں، مگر حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، کیا اسی دن کے لیے مودی حکومت کو یہاں کی عوام نے اقتدار سونپا تھا، شیاما پرساد نے کہا کہ ملک کی حکومت پر پوری طرح سے آر ایس ایس قابض ہے جو ملک کی سالمیت کے لئے کسی خطرہ سے کم نہیں۔ احتجاجی جلوس پیدل جی پی او گولمبر سے پیدل مارچ کرتے ہوئے گوتم بدھ اسمارک تک گیا اور وہاں جلسہ گاہ میں تبدیل ہو گیا۔