ریاست اتر پردیش کے ضلع مظفر نگر کے کسانوں نے مرکزی حکومت کی جانب سے پیش کردہ بجٹ پر مختلف ردعمل کا اظہار کیا۔
اس طرح کے گول بجٹ کی تجزیہ کرنا بھی بہت مشکل کام ہے۔ ملک کی 50 فیصد آبادی کا انحصار زراعت پر ہے، لیکن اتنی بڑی آبادی کے لئے صرف 16 نکاتی پروگرام کسانوں کی فلاح و بہبود نہیں کرسکتے ہیں۔ اگر زراعت کا شعبہ 16000 چھوٹے اور بڑے پروگراموں سے گزر رہا ہے تو یہ کم ہے۔
وزیر خزانہ نے فائدہ مند قیمت اور خریداری کی گارنٹی کے بجٹ تقریر میں بھی کسانوں کے مرکزی موضوع کا ذکر نہیں کیا ، یہ کسانوں کے لئے ایک بہت بڑی مایوسی ہے۔
فصل انشورنس، قرض معافی، کسان سمان ندھی بجٹ میں اضافہ نہ کرنا اور مزکورہ چیزوں میں بدلاؤ نہ کرنا اس سے تو ایسا لگتا ہے کہ وزیر خزانہ نے ان اہم موضوعات کو ہاتھ ہی نہیں لگایا۔
انہوں نے کہا کہ' بھارتیہ کسان یونین اس بجٹ کی مذمت کرتی ہے اور حکومت سے پوچھتی ہے کہ آپ کسانوں کی آمدنی کو دوگنا کرنے کا دعوی کرنے والے روڈ میپ کو بتائیں۔
یہ دعوی کسان کے لئے صرف ایک ہلچل ہے، کسانوں کو دھوکہ دے کر، معصوم نیز کسان کے ووٹ حاصل کرنا آسان ہے۔
مزید پڑھیں: بجٹ 2020 کے اہم نکات
کسانوں کو رساینک کھاد کی سبسڈی کم کردی گئی ہے، تاکہ ملک کی پیداوار بھی متاثر ہو۔ پیش کیے جانے والے بجٹ سے یہ یقینی ہے کہ حکومت کا گاؤں کے غریب کسان سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، ہم بجٹ میں پنچایت کی سطح پر گوداموں کے افتتاح کے اعلان کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ بجٹ کسانوں کے لئے سراسر مایوس کن ہے۔