انگریزی حکومت کے دوران ممبئی کے کوکنی مسلمانوں نے سنہ 1775 میں اس کا تعمیراتی کام شروع کیا اور یہ تعمیراتی کام 27 برس تک چلتا رہا۔ اس مسجد میں 8 ہزار افراد بیک وقت نماز پڑھ سکتے ہیں جبکہ 10 ہزار سے زائد لوگوں کی گنجائش ہے۔ جامع مسجد کے مفتی اشفاق قاضی نے بتایا کہ محمد علی امین روگھے نے اپنی دختر کی یاد میں اس کی تعمیر کرائی تھی جبکہ بقیہ تعمیرات دوسرے محمدعلی نے کرائی ہے۔
مسجد کے اندر کے حصے کو بنا کسی سہارے یا ستون کے بنایا گیا ہے۔ یہاں خالص سونے کی پالش کی گئی ہے۔ اتنے بڑے حصے کو بنا کسی ستون کے بنا کسی سہارے کے دیکھ کر ہمیں بھی تعجب ہوا، جس کے بعد ہم نے مسجد کے ذمہ داروں سے اس بار ے میں بات کی۔ ان سے سوال کیا کہ آخر بنا کسی سہارے کے اس کی تعمیر کیسے ممکن ہوئی؟ ہم مسجد کے سب سے اوپر کے حصے میں پہنچے۔ علاقے کے سماجی کارکن کلیم خان اور شعیب خطیب بھی موجود تھے۔ یہاں جانے کے بعد پتہ چلا کہ آخر اس کا معمہ کیا ہے۔
پوری مسجد کے اس حصے میں نیچے کسی طرح کے ستوں نہیں ہیں لیکن اسے اوپر کی طرف سے چھت کو لکڑیوں نے اپنی آغوش میں لے رکھا ہے۔ ایک طرح سے قینچی نما کے اس فن تعمیر سے چھت کو لکڑیوں کے پنجوں میں پھنسا دیا گیا ہے، جو کہ طویل عرصے سے اسی طرح سے مضبوط اور مستحکم ہے۔ اس حصے میں کسی کو بھی جانے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ جس طرح سے کسی بھی عمارت کو مضبوط اور مستحکم بنانے میں اس کی بنیاد اہمیت رکھتی ہے اسی طرز پر اس مسجد کے اس حصے کو مضبوط رکھنے میں ان لکڑیوں کی قینچی نما تکنیک کا کافی اہم رول ہے۔
پوری مسجد قدرتی آبی ذخیرے پر آباد ہے۔ اس دور میں مسجد کے اندر نمازیوں کو گرمی سے نجات پانے کے لیے پوری مسجد میں اس طرح سے سراخ کیے گئے ہیں جس کی وجہ سے قدرتی طور پر بنے اس حوض نما تالاب سے پوری مسجد میں ٹھنڈک رہتی ہے۔ اس مسجد کی تعمیر نہ تو انگریزوں نے کی نہ تو مغلوں نے باوجود اس کے اس مسجد کی بناوٹ، اس کی خوبصورتی، اس کی خصوصیت اپنے آپ میں ایک مثال ہے، ایک کشش رکھتی ہے، جو ہر آنے جانے والے کو اسے دیکھنے اور اس کے بارے میں جاننے کی جستجو پیدا کرتی ہے۔