حبس بیجا یغی کے "ہبیس کارپس"کی ایک عرضداشت جسکے تحت فریق کو زندہ یا مردہ عدالت کے روبرو پیش کرنا ہوتاہے اس پر آج یہاں ممبئی ہائی کورٹ کے جسٹس ایس ایس شندے اور منیش پٹیل پر مشتمل بنچ نے کہا کہ خاتون اور اس کے والدین نے اس بات کی تصدیق کی ہے متزکرہ خاتون سن بلوغ کی حدود کو پار کر چکی ہے اور وہ بالغ ہے نیز اس کی عمر تقریبا 23 برس کی ہے لہذا وہ اپنی خواہش کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
درخواست گزار جو ایم بی اے کا طالبعلم ہے، نے یہ عرضداشت داخل کی تھی جس کے دوران اس نے عدالت کو بتلایا کہ گزشتہ پانچ برسوں سے اسکے اور خاتون کے درمیان تعلقات ہے اور خاتون نے بھی دوران سماعت اس بات کا اعتراف کیا کہ عرض گزار اور اسکے درمیان تعلقات کا سلسلہ پانچ برسوں سے زائد کا ہے۔
درخواست گزار کی پیروی کرتے ہوے ایڈووکیٹ اے این قاضی نے عدالت کو بتلایا کہ 16 دسمبر 2020 کو جب درخواست گزار نے مقامی پولیس سے خاتون کے ساتھ رہنے کے لئے ان کی مدد کے لئے رابطہ کیا تھا ،تب خاتون کو پولیس اسٹیشن میں طلب کیا گیا لیکن اسوقت جبرآ اسکے والدین اپنے گھر لیکر چلے گئے اور اسکے بعد اسے اپنی معشوق سے رابطہ قائم کرنے کرنے کی اجازت بھی نہیں دی گئی ، جس کی وجہ سے اس نے مجبوراً حبس بیجا کی درخواست پیش کرکے خاتون کو عدالت کے روبرو بیش کئے جانے اور اسکی مرضی کا پتہ لگانے کا مطالبہ کیا ہے ۔
عدالت کو مزید بتلایا گیا کہ خاتون کے والدین نے اسے غیر قانونی حراست اور نظربند کئے ہوئے ہے کیونکہ وہ ان کے بین المذہبی تعلقات کی مخالفت کر رہے ہیں
عدالت نے فیصلے میں کہا کہ خاتون کے والدین نے درخواست گزار اور ان کی بیٹی کے مابین تعلقات کی مخالفت کی تھی اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ اسی وجہ سے وہ خاتون کو ان کے ساتھ لے گئے۔
انہوں نے مشاہدہ کیا کہ اس عرضی دائر کرنے کا مقصد مطمئن ہوگیا جب ہی خاتون کو عدالت میں پیش کیا گیا۔
لہذا عدالت نے خاتون کی درخواست پر مقامی پولیس افسر کو ہدایت کی کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ خاتون کو ہائی کورٹ کے احاطے سے اس منزل تک پہنچایا جائے جہاں وہ جانا چاہتی ہے
عدالت نے اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا بھی حوالہ دیا جس میں بین المذہب شادیوں کو ملک کی گنگا جمنی تہذیب کو زندہ رکھنے کے لئے خوش آئند قرار دیا۔
یو این آئی