یاد رہے کہ ساوتری بائی پھولے سنہ 2014 میں بی جے پی کے ٹکٹ سے بہرائچ کی رکن پارلیمان منتخب ہوئی تھیں جنہوں نے بعد میں مبینہ طور پر دلت پر ہوئے مظالم کے خلاف احتجاجاً پارٹی سے استعفیٰ دے دیا تھا اور کانگریس پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی۔
کانگریس میں شامل ہونے کے بعد پارٹی نے انہیں بہرائچ سے عام انتخابات میں میدان میں اتارا تھا لیکن رواں برس کے انتخابات میں انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
دلت رہنما پھولے نے کانگریس میں 2019 میں شامل ہوئی تھیں اور جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی واڈرا کے ساتھ متعدد مقامات پر موجود تھیں یہاں تک کہ جب سونبھدر سانحہ کے وقت پرینکا کو حراست میں لیا گیا تھا اس وقت بھی وہ مرزا پور میں ان کے ساتھ موجود تھیں۔
سابق رکن پارلیمان نے الزام لگایا 'کانگریس میں ان کی آواز نہیں سنی جارہی ہے اس لئے انہوں نے پارٹی سے استعفی دیا ہے'۔
انہوں نے نئی پارٹی کی تشکیل کا بھی اعلان کیا۔ان کے مطابق ان کی نئی پارٹی دلتوں اور دیگر پسماندہ طبقات کے مسائل کو اٹھائے گی۔
نئی پارٹی کا اعلان لکھنؤ میں 19 جنوری کو متوقع ہے۔رکن پارلیمان پھولے نے 2014 کے عام انتخابات میں بی جے پی کے ٹکٹ پر بہرائچ سے جیت درج کی تھی لیکن 6 دسمبر کو بھگواپارٹی سے استعفی دے دیا تھا۔ بعد میں انہوں نے کانگریس کی ٹکٹ پر بہرائچ سے قسمت آزمائی کی لیکن وہ بی جے پی لیڈر سے ہار گئیں۔
پھولے بی جے پی میں دلت خاتون کا ایک اہم چہرہ تھیں انہوں نے بہرائچ کے بلہا اسمبلی سیٹ سے 2012 میں جیت درج کی تھی۔
ساوتری بائی پھولے کے ذریعے پرینکا گاندھی پر الزام کے بعد بہرائچ کانگریس کے صدر چندر شیکر سنگھ آزاد نے ساوتری بائی پھولے کو کسی کام کے لائق نہیں بتایا۔
انہوں نے کہا کہ 'راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی نے انہیں پارٹی میں شامل کر کے عزت بخشی اور ٹکٹ دے کر الیکشن لڑایا لیکن ان کے خلاف عوام میں بہت زیادہ بے اطمینانی تھی، اس لیے وہ بری طرح الیکشن میں شکست سے دو چار ہوئیں۔'
انہوں نے ساوتری بائی پھولے پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ 'وہ مستقل مزاج عورت نہیں ہیں، وہ یہاں سے چلی گئیں، ایک اچھا کام ہوا، ان سے پارٹی کو کوئی فائدہ نہیں ہو رہا تھا'۔