کورونا وائرس کے بڑھتے معاملے اور ملک کے کچھ اضلاع میں دوسرے دور کے لاک ڈاؤن کی خبروں سے رامپور میں آج کل لاک ڈاؤن نافذ ہونے کی افواہوں کا بازار گرم ہے۔ ان افواہوں کو تقویت پولیس کے اس رویہ سے بھی مل رہی ہے کیونکہ پولیس بازاروں میں داخل ہو کر جبراً بازار بند کروا رہی ہے۔
بیوپار منڈل کے سکریٹری اور لال چائے پتی کے تاجر شعیب خان نے ای ٹی وی بھارت سے کہا کہ صفائی کے لئے جلد بازار بند کروانا صحیح ہے، لیکن پولیس اہلکار بازار بند کروانے کے لئے جو رویہ اختیار کر رہے ہیں یہ اپنے آپ میں شبہ پیدا کرنے والا ہے۔
وہیں کپڑا تاجر شاویز خان کا کہنا ہے کہ' ان کا شادی، پارٹی ویئر کا کام ہے۔ عید کے موقع پر مسلم علاقوں میں بڑے پیمانے پر شادیاں ہوتی ہیں لیکن لاک ڈاؤن کی افواہوں کے سبب لوگوں نے فی الحال کپڑوں کی خریداری بند کر دی ہے۔ جس سے ان کے کاروبار پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔
اسی طرح سے ایک دیگر کپڑا تاجر برکت کلیکشن کے سمیر کہتے ہیں کہ ان کی دوکان میں مال بھرا ہوا ہے لیکن لاک ڈاؤن کی افواہ سے بازار خالی ہو گئے ہیں۔ خریدار نہیں پہنچ رہے ہیں۔ ساتھ ہی ان کا کہنا ہے کہ جب کورونا ویکسین آ چکی ہے تو پھر ملک کے دیگر خطوں میں لاک ڈاؤن کیوں۔
شاداب مارکیٹ کے ایک اور کپڑا تاجر زبیر خان نے حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اپنی منشا کے مطابق تمام بھیڑ بھاڑ والی سرگرمیاں انجام دے رہی ہے۔ انہوں نے مغربی بنگال کے اسمبلی انتخابات تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ' وہاں ریلیاں جاری ہیں لیکن یہاں صفائی کے نام پر جلد بازار بند کرواکر لاک ڈاؤن کی افواہوں کو تقویت دی جا رہی ہے۔
واضح رہے کہ لاک ڈاؤن کی افواہوں کو ضلع کلکٹر رویندر کمار مندار پہلے ہی خارج چکے ہیں۔ ضلع کلکٹر نے سوشل میڈیا پر آرہے لوگوں کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ' لاک ڈاؤن یا نائٹ کرفیو جیسی باتیں افواہ ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے'۔
بہرحال لاک ڈاؤن کی خبریں حقیقت ہوں یا افواہ لیکن عام آدمی اتنا خوفزدہ ہو چکا ہے کہ لاک ڈاؤن ختم ہونے کے 8 ماہ بعد وہ اپنی تجارت اور بجٹ کو سنبھالنے میں ناکام نظر آ رہا ہے۔