لکھنئو: لڑکیوں کی شادی کی عمر 21 سال کرنے کی کابینہ کی طرف سے تجویز پاس ہونے کے بعد سے ملک میں الگ الگ رد عمل سامنے آرہے ہیں۔ پیر کو آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی Maulana Khalid Saifullah Rahmani, General Secretary, All India Muslim Personal Law Board نے بیان جاری کر سرکار کے فیصلے پر اعتراض درج کرایا ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سکریٹری نے پیر کو جاری بیان میں کہا کہ نکاح انسانی زندگی کا ایک اہم حصہ ہے لیکن نکاح کرنے کی عمر کو قید نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ اس سے جسم بھی متاثر ہوگا۔ اس کے لئے صرف اسلام و دیگر مذاہب میں بھی نکاح کی کوئی عمر قید تک نہیں کی گئی ہے۔ بلکہ اس کو مذہب کے ماننے والوں کے اپنے اوپر ہے۔
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ اگر کوئی لڑکا یا لڑکی 21 سال سے پہلے نکاح کی ضرورت محسوس کرتا ہے اور نکاح کے بعد کی ذمہ داری پورا کرنے میں قابلیت رکھتا ہو تو اس کو نکاح سے روکنا ظلم اور انسانی زندگی کی آزادی میں دخل ہے۔ سماج میں اس سے جرائم کو تقویت مل سکتی ہے۔ 18 سال یا 21 سال کی شادی کی کم از کم عمر مقرر کرنا اور اس سے پہلے شادی کو خلاف قانون قرار دینا نہ تو لڑکیوں کے مفاد میں ہے اور نہ ہی معاشرے کے لیے فائدہ مند ہے۔
مزید پڑھیں:
- نوعمری کی شادی کے مضر اثرات
- MAhmood Madani on Marriage Age: 'لڑکیوں کی شادی کی عمر بڑھانے کے بجائے لڑکوں کی عمر کم کی جاسکتی تھی'
بلکہ اس سے اخلاقی اقدار کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ مولانا نے کہا کہ ویسے بھی کم عمری میں نکاح کا رواج آہستہ آہستہ ختم ہوتا جا رہا ہے لیکن کچھ حالات ایسے آتے ہیں کہ مقررہ عمر سے پہلے شادی کرنا لڑکی کے مفاد میں ہوتا ہے، اس لیے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ ایسے غیر منافع بخش لیکن نقصان دہ قوانین بنانے سے گریز کریں۔