جموں کشمیر میں پانچ اگست کو دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد تمام سیاسی رہنما گرفتار کئے گئے تھے یا پھر نظر بند رکھے گئے تھے۔ گذشتہ روز حکومت نے تمام 34 سیاسی رہنماؤں کو سردیوں کے ایام کو دیکھتے ہوئے سنتور ہوٹل سے ایم ایل اے ہاسٹل منتقل کیا تھا۔
جموں و کشمیر کے تین سیاسی رہنمأ سجاد غنی لون، شاہ فیصل اور وحید پارا ان 34 رہنماؤں میں شامل تھے جنہیں شہر کے سنتور ہوٹل میں حراست میں رکھا گیا تھا ۔
کشمیر پولیس کا یہ ردعمل اس وقت سامنے آیا جب جموں و کشمیر کی نظر بند سابق سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی بیٹی التجا مفتی نے ان کی والدہ کے ٹویٹر اکاؤنٹ کے ذریعہ پول پولیس پر کے الزامات لگائے تھے۔
حکام کے ذرائع نے بتایا کہ حراست میں لیے گئے رہنماؤں کو ان کے منتقل ہونے سے پہلے ہی معمول کے سامان کی جانچ پڑتال کی گئی تھی۔
ٹویٹر پر جموں و کشمیر کے ایک سینئر پولیس اہلکار امتیاز حسین نے لکھا کہ' اپراپوس کچھ ٹویٹر ہینڈل میں ایم ایل اے ہاسٹل سرینگر میں چند رہنماؤں کے ساتھ مار پیٹ کا دعوی کررہے ہیں ، اس طرح یہ واضح کیا گیا ہے کہ ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا ہے۔ لاجمنٹ کے لیے لازمی طور پر سیکیورٹی کی مشقیں کی گئیں'۔
اس سے قبل التجا مفتی نے ٹویٹ کیا کہ' ایس کے آئی سی سی میں زیر حراست رہنماوں کو سرینگر کے ایم ایل اے ہاسٹلمنتقل کیا گیا۔ پولیس نے سجاد لون ، وحید پارا اور شاہ فیصل کے ساتھ ہاتھا پائی کی۔ کیا آپ منتخب نمائندوں کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں؟ انہیں ذلیل کیوں کرتے ہیں؟ جموں و کشمیر مارشل لاء کے تحت ہیں اور پولیس کو طاقت سے عدم استحکام کا سامنا ہے۔'
ایک اور ٹویٹ میں انہوں نے لکھا کہ' وہیں وحید پارا جسے جموں و کشمیر میں جمہوریت کو مستحکم کرنے کے لیے کام کرنے پر سابق وزیر داخلہ شری راج ناتھ سنگھ نے ستائش کی۔ وہیں شاہ فیصل جنہیں یو پی ایس سی امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کی اور کشمیر کا رول ماڈل کہلایا جاتے تھے۔ ایک بار سراہا گیا اور اب ذلیل کیوں کیا جارہا ہیں؟'