ETV Bharat / city

زمین سے بلندی پر آسام کے 'چانگ گھر'

author img

By

Published : Jun 7, 2021, 5:12 PM IST

گاؤں کے تمام 45 کنبوں نے چانگ گھر یا ٹونگی گھر بنائے ہیں جو زمین سے کم از کم 25 سے 30 فٹ بلندی پر ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ہاتھیوں کے جھنڈ انسانوں کو نقصان نہ پہنچائیں۔

Karbi Anglong district in Assam
Karbi Anglong district in Assam

تہذیب کے آغاز سے ہی انسان گھروں میں رہ رہا ہے۔ لوگ اپنی پسند اور صلاحیت کے مطابق مختلف مکانات تعمیر کرتے ہیں۔

زمین سے بلندی پر آسام کے 'چانگ گھر'

آسام کے اس دور دراز گاؤں میں لوگ بلند گھروں میں رہ رہے ہیں جسے آسامی زبان میں چانگ گھر یا ٹونگی گھر کہا جاتا ہے۔ حالانکہ دیہی باشندوں کے اپنے مکانات دوسرے لوگوں کی طرح ہیں لیکن وہ صدیوں سے ان عام گھروں کے قریب بنائے گئے ان چانگ گھروں یا اونچے گھروں میں رہ رہے ہیں۔

گولا گھاٹ اور آسام کے کاربی آنگلونگ ضلع کی سرحد پر واقع برمہاری پاتھر گاؤں کے باشندوں کے لئے چانگ گھر میں رہنے کے علاوہ کوئی دوسرا متبادل نہیں ہے۔ اس دور دراز گاؤں کے 45 خاندان مجبوری میں چانگ گھر میں رہتے ہیں۔ جنگلی ہاتھیوں کے مسلسل حملے نے اس گاؤں کے باشندوں کو چانگ گھر بنانے کے لئے مجبور کردیا ہے۔ جہاں وہ رات کو سوتے ہیں۔

مقامی باشندہ نے کہا کہ ''ہم سب چانگ گھر میں رہتے ہیں۔ یہاں بجلی نہیں ہے۔ ہاتھی مسلسل حملے کرتے ہیں اور اسی وجہ سے ہم اس چانگ گھر کو بناتے ہیں اور زمین سے اوپر رہتے ہیں۔ اونچائی عام طور پر 25 فٹ سے زیادہ ہوتی ہے تاکہ جنگلی ہاتھی نقصان نہ پہنچا سکے۔ ہم نیچے زمین میں کھانا بناتے ہیں لیکن ہمیں سونے کے لئے اوپر چڑھنا پڑتا ہے۔ ہم صدیوں سے اس طرح سے زندگی گزار رہے ہیں۔

گاؤں کے تمام 45 کنبوں نے چانگ گھر یا ٹونگی گھر بنائے ہیں جو زمین سے کم از کم 25 سے 30 فٹ بلندی پر ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ہاتھیوں کے جھنڈ انسانوں کو نقصان نہ پہنچائیں۔

جنگلات کے قریب واقع اس گاؤں میں جنگلی ہاتھیوں کے جھنڈ کا سال بھر گاؤں میں داخل ہونا عام بات ہے۔ گاؤں کے لوگ شام کے بعد چانگ گھر پر چڑھ جاتے ہیں اور صبح تک وہاں قیام کرتے ہیں۔

مقامی باشندہ نے بتایا کہ ''یہاں مسئلہ جنگلی ہاتھیوں کا ہے۔ ہاتھیوں کا جھنڈ شام تقریباً چھ بجے جنگل سے نکلتا ہے، لہذا ہم اُس سے پہلے اپنا کھانا کھاتے ہیں اور شام چھ بجے تک اونچے گھروں پر چڑھ جاتے ہیں۔ گھروں میں زمین پر سونا مشکل ہے کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ ہاتھی کب حملہ کریں گے۔ اسی لئے ہر شخص ٹونگی گھر پر چڑھ کر سو جاتا ہے۔ میرے کنبے میں میری بیوی اور بیٹی ہے۔ ہم یہاں سال بھر ٹونگی گھر میں سوتے ہیں۔ یہاں سال بھر ہاتھیوں کے حملے ہوتے رہتے ہیں، بعض اوقات ہمیں لگتا ہے کہ ہمیں گھروں میں زمین پر سونا چاہئے لیکن یہ بہت خطرناک ہے لہذا ہمارے پاس ان اونچے گھروں میں سونے کے علاوہ کوئی دوسرا متبادل نہیں ہے۔''

بجلی جیسی بنیادی سہولیات سے محروم گاؤں کے لوگ اب حکومت سے مضبوط چانگ گھر تعمیر کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں جس سے نہ صرف وہ محفوظ رہیں گے بلکہ چانگ گھروں کی مرمت کی لاگت سے بھی بچ جائیں گے۔ اب دیکھنا ہوگا کہ جو حکومت ترقی کے بےشمار دعوے کرتی ہے، وہ دیہی باشندوں کے مطالبات پر کتنا فکر مند ہے اور کیا گاؤں میں بنیادی سہولیاف فراہم کرنے کا کوئی منصوبہ تیار کر پاتی ہے؟

تہذیب کے آغاز سے ہی انسان گھروں میں رہ رہا ہے۔ لوگ اپنی پسند اور صلاحیت کے مطابق مختلف مکانات تعمیر کرتے ہیں۔

زمین سے بلندی پر آسام کے 'چانگ گھر'

آسام کے اس دور دراز گاؤں میں لوگ بلند گھروں میں رہ رہے ہیں جسے آسامی زبان میں چانگ گھر یا ٹونگی گھر کہا جاتا ہے۔ حالانکہ دیہی باشندوں کے اپنے مکانات دوسرے لوگوں کی طرح ہیں لیکن وہ صدیوں سے ان عام گھروں کے قریب بنائے گئے ان چانگ گھروں یا اونچے گھروں میں رہ رہے ہیں۔

گولا گھاٹ اور آسام کے کاربی آنگلونگ ضلع کی سرحد پر واقع برمہاری پاتھر گاؤں کے باشندوں کے لئے چانگ گھر میں رہنے کے علاوہ کوئی دوسرا متبادل نہیں ہے۔ اس دور دراز گاؤں کے 45 خاندان مجبوری میں چانگ گھر میں رہتے ہیں۔ جنگلی ہاتھیوں کے مسلسل حملے نے اس گاؤں کے باشندوں کو چانگ گھر بنانے کے لئے مجبور کردیا ہے۔ جہاں وہ رات کو سوتے ہیں۔

مقامی باشندہ نے کہا کہ ''ہم سب چانگ گھر میں رہتے ہیں۔ یہاں بجلی نہیں ہے۔ ہاتھی مسلسل حملے کرتے ہیں اور اسی وجہ سے ہم اس چانگ گھر کو بناتے ہیں اور زمین سے اوپر رہتے ہیں۔ اونچائی عام طور پر 25 فٹ سے زیادہ ہوتی ہے تاکہ جنگلی ہاتھی نقصان نہ پہنچا سکے۔ ہم نیچے زمین میں کھانا بناتے ہیں لیکن ہمیں سونے کے لئے اوپر چڑھنا پڑتا ہے۔ ہم صدیوں سے اس طرح سے زندگی گزار رہے ہیں۔

گاؤں کے تمام 45 کنبوں نے چانگ گھر یا ٹونگی گھر بنائے ہیں جو زمین سے کم از کم 25 سے 30 فٹ بلندی پر ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ہاتھیوں کے جھنڈ انسانوں کو نقصان نہ پہنچائیں۔

جنگلات کے قریب واقع اس گاؤں میں جنگلی ہاتھیوں کے جھنڈ کا سال بھر گاؤں میں داخل ہونا عام بات ہے۔ گاؤں کے لوگ شام کے بعد چانگ گھر پر چڑھ جاتے ہیں اور صبح تک وہاں قیام کرتے ہیں۔

مقامی باشندہ نے بتایا کہ ''یہاں مسئلہ جنگلی ہاتھیوں کا ہے۔ ہاتھیوں کا جھنڈ شام تقریباً چھ بجے جنگل سے نکلتا ہے، لہذا ہم اُس سے پہلے اپنا کھانا کھاتے ہیں اور شام چھ بجے تک اونچے گھروں پر چڑھ جاتے ہیں۔ گھروں میں زمین پر سونا مشکل ہے کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ ہاتھی کب حملہ کریں گے۔ اسی لئے ہر شخص ٹونگی گھر پر چڑھ کر سو جاتا ہے۔ میرے کنبے میں میری بیوی اور بیٹی ہے۔ ہم یہاں سال بھر ٹونگی گھر میں سوتے ہیں۔ یہاں سال بھر ہاتھیوں کے حملے ہوتے رہتے ہیں، بعض اوقات ہمیں لگتا ہے کہ ہمیں گھروں میں زمین پر سونا چاہئے لیکن یہ بہت خطرناک ہے لہذا ہمارے پاس ان اونچے گھروں میں سونے کے علاوہ کوئی دوسرا متبادل نہیں ہے۔''

بجلی جیسی بنیادی سہولیات سے محروم گاؤں کے لوگ اب حکومت سے مضبوط چانگ گھر تعمیر کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں جس سے نہ صرف وہ محفوظ رہیں گے بلکہ چانگ گھروں کی مرمت کی لاگت سے بھی بچ جائیں گے۔ اب دیکھنا ہوگا کہ جو حکومت ترقی کے بےشمار دعوے کرتی ہے، وہ دیہی باشندوں کے مطالبات پر کتنا فکر مند ہے اور کیا گاؤں میں بنیادی سہولیاف فراہم کرنے کا کوئی منصوبہ تیار کر پاتی ہے؟

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.