قومی اقلیتی کمیشن نے آج اپنے دفتر میں عالمی یوم اقلیت منایا جس میں اقلیتی وزیر مختار عباس نقوی نے اپنے خطاب میں اقلیتی ادارہ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ پر پولیس کی بربریت کا ذکر تک نہیں کیا.
اقلیتی وزیر نے ہمدردی ظاہر کرنے کے بجائے طلبہ کے احتجاج کو بے مقصد اور غیر ضروری قرار دیا اور کہا کہ ان کی تحریک اوندھے منہ گرے گی۔
انہوں نے کہا کہ" اقلیتی وزارت کی ذمہ داری صرف بھارت کی اقلیتوں کے لیے ہی نہیں بلکہ بھارت سے باہر جو اقلیت ہیں، ان کا بھی خیال رکھنا ہے۔
مختار عباس نقوی نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کو فساد اور ٹکراؤ سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف افواہ پھیلانے کی کوشش ہے۔
ایسا پہلی بار ہوا ہے جب اقلیتی وزارت اپنا یوم اقلیت اتنے چھوٹے پیمانے پر منارہی ہے، اس سے قبل تک اس دن بڑے پروگرام منعقد کئے جاتے رہے اور معزز شخصیات کو خطاب کے لیے مدعو کیا جاتا رہا ہے۔
نقوی نے مزید کہا کہ جو احتجاج ہورہے ہیں اس سے سماج میں کھائی بڑھے گی، اور زہر پھیلے گا، اس موقع پر نقوی کانگریس پر حملہ کرنا نہیں بھولے اور انہوں نے اپنی ایک جذباتی کہانی بھی سنائی کہ کیسے ایک بوڑھی مسلم خاتون انہیں یہ بتارہی تھیں کہ کانگریس انہیں کہہ رہی ہے، اب یہ ملک مسلمانوں کا نہیں۔"
نقوی نے اپنی پوری تقریر میں پولیس کے حملوں میں زخمی ہوئے طلبہ کے ساتھ ہمدردی ظاہر نہیں کی اور نہ ہی تسلی کا کوئی لفظ کہا۔ بلکہ ان کے احتجاج کو غیر ضروری قرار دیا۔