اردو کے معروف و مشہور شاعر پنڈت آنند موہن جوتشی’گلزار دہلوی‘ کے انتقال پر مصنف معصوم مرادآبادی نے تأثر پیش کرتے ہوئے کہا کہ گلزار صاحب دہلی کی ادبی تھذیبی زندگی کے ایک اٹوٹ حصہ تھے۔
میں 43 برس سے دہلی میں رہ رہا ہوں اور اس دوران میں نے گلزار صاحب سے سیکڑوں مرتبہ مشاعروں میں سنا بھی اور دیکھا بھی ہے۔وہ ہر ادبی محفل میں ملاقات کرتے تھے اور بات کرتے تھے، انکی گفتگو سننے کو ہمیشہ دل کرتا تھا اور دیر تک انکے پاس بیٹھنے کا من کرتا تھا۔
معصوم مراد آبادی نے کہا کہ گلزار دہلوی کی موت کی وجہ سے دہلی کی زندگی ویران ہوگئ ہے، وہ ہماری گنگا جمنی تھذیب کے آخری چشم و چراغ تھے۔جس نے اردو زبان اور اردو تھذیب کی پرورش کی۔
گلزار دہلوی ایک عظیم والد کشمیری پنڈت کے بیٹے تھے، ان کے والد زار دہلوی استاد داغ دہلوی کے شاگرد تھے۔
معصوم مراد آبادی کے مطابق گلزار صاحب اپنے والد کے آدھے زار کے ساتھ گل کا استعمال کرتے تھے، گلاب کا پھول ہمیشہ ان کے سینے پر لگا رہتا تھا اور وہ ہمیشہ شیروانی پہنتے تھے جس کی وجہ سے میں انھیں ہمیشہ گل گلزار کہہ کر پکارتا تھا۔
معصوم مراد آبادی نے بتایا کہ دہلی میں سیکڑوں ایسے افراد تھے جن سے گلزار دہلوی بہت پیار کرتے تھے، جن سے مل کر وہ بہت خوش ہوتے تھے، ان تمام لوگوں کو اس محرومی کا احساس ہوا ہوگا کہ وہ لوگ ان کے آخری سفر میں شامل نہیں ہوسکے۔