شمش الدین اور شرما جی کے درمیان دوستی کا یہ اٹوٹ رشتہ ساٹھ برسوں سے قائم و دائم ہے۔ ساٹھ برسوں میں بہار میں نہ جانے کتنے فرقہ وارانہ فسادات رونما ہوئے ہیں۔
خاص طور پر سنہ 1989 میں بھاگلپور فساد ہوا تھا جس میں 'معین الدین چک' (موجودہ نام) 'مُندی چک' کے نام سے جانا جا تا ہے یہاں مقیم زیادہ ترمسلمان اس فسادات کے سبب اپنا گھربار چھوڑ کر مسلم اکثریتی علاقوں کی جانب کوچ کرگئے تھے۔
بھاگلپور فساد کے دوران اس علاقے میں واقع مسجد کو کافی نقصان پہنچایا گیا لیکن مسجد کی تعمیر نو میں شرما جی نے اپنے دوست محمد شمس کی پوری مدد کی اور خود محمد شمس جو مسجد کے متولی تھے یہ مانتے ہیں کہ اگر شرما جی نہیں ہوتے تو مسجد کی تعمیر نو بہت مشکل تھی۔
محمد شمس پیشہ سے درزی ہیں اور شرما جی پیشے سے لوہار۔ مسجد اور درگاہ کی دیکھ بھال دونوں مل کر کرتے ہیں۔
ان ماننا ہے کہ ان دوستی کی راہ میں مذہب کبھی آڑے نہیں آیا۔ مذہب، ذات عقیدے سے ہٹ کر دوستی انسانیت کا ایک خوبصورت تحفہ ہے اور ہم یہی خوبصورت تحفہ کو اپنائے ہوئے ہیں۔
لیکن سیاسی پارٹیاں اپنے مفاد کیلئے ہندو مسلم کرتی ہیں اور دونوں ہی فرقے کے لوگ سیاسی پارٹیوں کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔
شرما جی بتاتے ہیں کہ وہ صبح سویرے اٹھ کر گنگا اسنان کے لیے جاتے ہیں پھر درگاہ پر اگربتی جلاتے ہیں تبھی کھان پان کرتے ہیں۔
سنہ 1989 میں ہوئے بھاگلپور فساد سے نہ صرف جانی مالی نقصان ہوا تھا بلکہ دونوں مذاہب کے لوگوں میں نفرت کا شعلہ اس قدر بھڑکا کہ اس کی چنگاری کبھی کبھار آج بھی کئی علاقوں کو خاکستر کر جاتی ہے۔
مزید پڑھیں:کورونا وائرس سے متعلق تیاریوں کا جائزہ
ایسے حالات میں محمد شمس اور شرما جی کی دوستی ہندو مسلم کے نام پر نفرت کی دکان چلانے والوں کے لیے ایک سبق ہے جو محبت اور انسانیت کا درس دے رہے ہیں۔