منتخب نمائندوں کا کہنا تھا کہ 2011 کی مردم شماری کے مطابق سرحدی قصبہ اوڈی اور بونیار میں تقریبا 84 فیصد لوگ پہاڑی بولنے والے ہیں جبکہ صرف 16 فیصد لوگ ہی گجر طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، جنہیں شیڈیول ٹرائب زمرے میں لانے کی باتیں سامنے آرہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے ایسے اقدام سے سرحدی علاقے میں رہنے والی بیشتر پہاڑی آبادی شیڈیول ٹرائب کے مراعات سے دور رہ جائے گی۔
ان لوگوں کا کہنا ہیں کہ اوڈی کے عوام نے ہمیشہ سے ہی جمہوری قدروں کی حفاظت کی اور ان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ دینے سے بھی گریز نہیں کیا اور اگر حکومتم ان کے اس دیرینہ مطالبے کو نظر انداز کرے گی تو ان کا جمہوری اداروں سے بھروسا اٹھ جائےگا۔
انہوں نے کہا کہ اوڈی میں رہنے والے لوگوں کا رہن سہن خانہ پینا یکساں ہے جس میں 16 فیصد آبادی کو ایس ٹی زمرے میں شامل کیا گیا ہے، جو اکثریتی طبقے کے لیے ناانصافی ہے۔
پرس کانفرنس میں بیٹھے لوگوں نے حکومت کو متنبہ کیا کہ اگر سرکار اس طرح کی کسی اقدام پر غوروخوص کر رہی ہیں تو منتخب ہوے بلدیاتی اور پنچائتی اداروں سے وابستہ نمائندے مجموعی طور پر اپنا استعفی پیش کرینگے۔
انہوں نے کہا کہ ایسے اقدامات اس سرحدی قصبہ میں رہنے والے لوگوں میں درار پیدا کر سکتے ہیں اور یہاں کے بھای چارے اور امن کے لیے نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے گورنر انتظامہ سے مطالبہ کیا کہ اس پہاڑی قصبہ کے لوگوں کو زبان کی بنیادوں پر نہ تقسیم کیا جائے اور اگر کوئی ایسا قدم سرکار کے زیر غور ہے تو آبادی کے تناسب کو نظر میں رکھتے ہوئے اس پے نظرے ثانی کی جائے۔