ETV Bharat / city

مبینہ لو جہاد معاملہ: قانون کے غلط استعمال پر حکومت سے جواب طلب

اتر پردیش کے سیتا پور شہر سے لوجہاد کے نام پر گرفتار دس ملزمین کو مقدمہ سے ڈسچارج کرنے والی عرضی پر عدالت نے سماعت دو ہفتوں کے لیئے ملتوی کردی۔

Allahabad High Court
Allahabad High Court
author img

By

Published : Feb 10, 2021, 5:57 PM IST

اتر پردیش کے سیتا پور شہر سے لوجہاد کے نام پر گرفتار دس ملزمین کو مقدمہ سے ڈسچارج کرنے والی عرضی پر آج الہ آباد ہائیکورٹ کی لکھنؤ بینچ نے سماعت کی۔ اس دوران عدالت نے لوجہاد قانون کے غلط استعمال پر یوپی سرکار سے جواب طلب کیا، نیز سرکاری وکیل کو جواب داخل کرنے کا آخری موقع دیتے ہوئے سماعت دو ہفتوں کے لیئے ملتوی کردی۔

سماعت کے دوران جمعیۃ علماء ہند کے وکیل نے اس قانون کو شہریوں کی آزادی اور خودمختاری پر ایک حملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس قانون کی آڑ میں ایک فرقہ کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

اس سے قبل عدالت نے یو پی حکومت کو ملزمین کی جانب سے داخل عرضداشت پر جواب داخل کرنے کا حکم دیا تھا لیکن آج سرکار کی جانب سے جواب داخل نہ ہونے کی صورت میں عدالت نے یوپی سرکار کی نمائندگی کرنے والے وکیل کو جواب داخل کرنے کا آخری موقع دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

جسٹس نریندر کمار جوہر ی کے سامنے آج معاملہ سماعت کے لئے پیش ہوا۔ اس دوران سینئر ایڈوکیٹ او پی تیوار ی نے عدالت کو بتایا کہ پولس نے دس بے قصور لوگوں کو جس میں خواتین بھی شامل ہیں، حراست میں لیکر آئین ہند کے ذریعہ دی گئی ان کی شخصی آزادی ختم کردی ہے۔ لہذا ان کے خلاف قائم مقدمہ ختم کیا جائے۔

ایڈوکیٹ تیواری نے عدالت کو بتایا کہ ملزمین کے خلاف 26 نومبر کو مقدمہ قائم کیا گیا جبکہ 28 نومبر 2020 کو اتر پردیش کے گورنر آنندی بین پٹیل نے ”غیر قانونی تبدیلی مذہب مانع آرڈیننس 2020“ Uttar Pradesh Prohibition of Unlawful Conversion of Religion Ordinance, 2020 پر دستخط کئے۔ یعنی کے اس مقدمہ پر غیر قانونی طور پر اس قانون کا اطلاق کیا گیا جس پر جسٹس جوہری نے عدالت میں موجود ایڈوکیٹ جنرل سے جواب طلب کیا جس پر انہوں نے عدالت سے کہا کہ انہیں جواب داخل کرنے کا موقع دیں تاکہ مقدمہ کی فائل کا معائنہ کرنے کے بعد عدالت کو جواب دے سکیں۔

ایڈوکیٹ او پی تیواری نے تقریباً ایک گھنٹے تک بحث کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ یو پی حکومت لو جہاد کے نام پر مسلمانوں کو ہراساں کررہی ہے اور آئین ہند کے ذریعہ حاصل بنیادی حقوق کو اقتدار کے بل بوتے پر پامال کررہی ہے نیز لو جہاد کو غیرقانونی قرار دینے والے قانون کا سہارا لیکر اتر پردیش پولس مسلمانوں کو پریشان کررہی ہے اور انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل رہی ہے جس کی ایک مثال یہ مقدمہ ہے جس میں مسلم لڑکے کے والدین، قریبی رشتہ داروں کو گرفتار کرلیا گیا ہے جبکہ ان کا اس معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، مسلم لڑکا اور ہندو لڑکی نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے اور دونوں فی الحال کہاں ہیں کسی کو نہیں معلوم لیکن لڑکی کے والد کی فریاد پر مقامی پولس نے دو خواتین سمیت دس لوگوں کو گرفتار کرلیا جس کے بعد سے پورے علاقے میں خوف و ہراس کا ماحول ہے۔

ایڈوکیٹ تیواری نے کہا کہ گرفتار شدگان شمشاد احمد، رفیق اسماعیل، جنید شاکر علی، محمد عقیل منصوری، اسرائیل ابراہیم، معین الدین ابراہیم، میکائیل ابراہیم، جنت الابراہیم، افسری بانو، اسرائیل عثمان بقرعیدی اور چان بی بی کے خلاف قائم مقدمہ غیر آئینی بنیادوں پر ٹکا ہوا ہے جسے ختم کردینا چاہئے جس پر عدالت نے انہیں کہا کہ ریاستی حکومت کے جواب کی روشنی میں عدالت اس تعلق سے فریقین کی بحث کی سماعت کے بعد فیصلہ کریگی۔

آج عدالت میں سینئر ایڈوکیٹ او پی تیواری کے ساتھ ایڈوکیٹ عارف علی، ایڈوکیٹ فرقان و دیگر موجود تھے۔

جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی نے قانون کو شہریوں کی آزادی اور خودمختاری پر ایک حملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس قانون کی آڑ میں ایک فرقہ کو نشانہ بنانا غلط ہے۔انہوں نے کہا کہ کچھ ریاستوں میں مذہبی آزادی پر قدغن لگانے کی غرض سے نام نہاد لوجہاد کی آڑمیں قانون سازی آئین کے رہنما اصولوں کے خلاف ہے اور یہ قانون شہریوں کی آزادی اور خود مختاری پر ایک حملہ ہے جبکہ آئین میں ملک کے ہر شہری کو نہ صرف مکمل مذہبی آزادی دی گئی ہے بلکہ اسے اپنی پسند اور ناپسند کے اظہار کا بھی پورا اختیاردیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ قانون سازی کے وقت دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس کا اطلاق سب پر یکساں ہوگا، اور کسی فرقے کے ساتھ کوئی امتیاز نہیں برتا جائے گا لیکن اترپردیش جیسی اہم ریاست میں اس آئین مخالف قانون کا دھڑلے سے ایک مخصوص فرقہ کے خلاف استعمال ہورہا ہے، انہوں نے آگے کہا کہ حال ہی میں اسی طرح کے ایک معاملہ میں الہ آبادہائی کورٹ میں اترپردیش سرکارکی طرف سے جو حلف نامہ داخل کیا گیا ہے وہ اس افسوسناک سچائی کا آئینہ ہے، حلف نامہ میں دی گئی تفصیل کے مطابق اب تک جن 85 لوگوں کے خلاف اس قانون کے تحت مقدمے قائم کئے گئے ہیں ان میں 79مسلمان ہیں جبکہ دیگر عیسائی فرقے سے تعلق رکھتے ہیں۔

اتر پردیش کے سیتا پور شہر سے لوجہاد کے نام پر گرفتار دس ملزمین کو مقدمہ سے ڈسچارج کرنے والی عرضی پر آج الہ آباد ہائیکورٹ کی لکھنؤ بینچ نے سماعت کی۔ اس دوران عدالت نے لوجہاد قانون کے غلط استعمال پر یوپی سرکار سے جواب طلب کیا، نیز سرکاری وکیل کو جواب داخل کرنے کا آخری موقع دیتے ہوئے سماعت دو ہفتوں کے لیئے ملتوی کردی۔

سماعت کے دوران جمعیۃ علماء ہند کے وکیل نے اس قانون کو شہریوں کی آزادی اور خودمختاری پر ایک حملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس قانون کی آڑ میں ایک فرقہ کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

اس سے قبل عدالت نے یو پی حکومت کو ملزمین کی جانب سے داخل عرضداشت پر جواب داخل کرنے کا حکم دیا تھا لیکن آج سرکار کی جانب سے جواب داخل نہ ہونے کی صورت میں عدالت نے یوپی سرکار کی نمائندگی کرنے والے وکیل کو جواب داخل کرنے کا آخری موقع دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

جسٹس نریندر کمار جوہر ی کے سامنے آج معاملہ سماعت کے لئے پیش ہوا۔ اس دوران سینئر ایڈوکیٹ او پی تیوار ی نے عدالت کو بتایا کہ پولس نے دس بے قصور لوگوں کو جس میں خواتین بھی شامل ہیں، حراست میں لیکر آئین ہند کے ذریعہ دی گئی ان کی شخصی آزادی ختم کردی ہے۔ لہذا ان کے خلاف قائم مقدمہ ختم کیا جائے۔

ایڈوکیٹ تیواری نے عدالت کو بتایا کہ ملزمین کے خلاف 26 نومبر کو مقدمہ قائم کیا گیا جبکہ 28 نومبر 2020 کو اتر پردیش کے گورنر آنندی بین پٹیل نے ”غیر قانونی تبدیلی مذہب مانع آرڈیننس 2020“ Uttar Pradesh Prohibition of Unlawful Conversion of Religion Ordinance, 2020 پر دستخط کئے۔ یعنی کے اس مقدمہ پر غیر قانونی طور پر اس قانون کا اطلاق کیا گیا جس پر جسٹس جوہری نے عدالت میں موجود ایڈوکیٹ جنرل سے جواب طلب کیا جس پر انہوں نے عدالت سے کہا کہ انہیں جواب داخل کرنے کا موقع دیں تاکہ مقدمہ کی فائل کا معائنہ کرنے کے بعد عدالت کو جواب دے سکیں۔

ایڈوکیٹ او پی تیواری نے تقریباً ایک گھنٹے تک بحث کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ یو پی حکومت لو جہاد کے نام پر مسلمانوں کو ہراساں کررہی ہے اور آئین ہند کے ذریعہ حاصل بنیادی حقوق کو اقتدار کے بل بوتے پر پامال کررہی ہے نیز لو جہاد کو غیرقانونی قرار دینے والے قانون کا سہارا لیکر اتر پردیش پولس مسلمانوں کو پریشان کررہی ہے اور انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل رہی ہے جس کی ایک مثال یہ مقدمہ ہے جس میں مسلم لڑکے کے والدین، قریبی رشتہ داروں کو گرفتار کرلیا گیا ہے جبکہ ان کا اس معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، مسلم لڑکا اور ہندو لڑکی نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے اور دونوں فی الحال کہاں ہیں کسی کو نہیں معلوم لیکن لڑکی کے والد کی فریاد پر مقامی پولس نے دو خواتین سمیت دس لوگوں کو گرفتار کرلیا جس کے بعد سے پورے علاقے میں خوف و ہراس کا ماحول ہے۔

ایڈوکیٹ تیواری نے کہا کہ گرفتار شدگان شمشاد احمد، رفیق اسماعیل، جنید شاکر علی، محمد عقیل منصوری، اسرائیل ابراہیم، معین الدین ابراہیم، میکائیل ابراہیم، جنت الابراہیم، افسری بانو، اسرائیل عثمان بقرعیدی اور چان بی بی کے خلاف قائم مقدمہ غیر آئینی بنیادوں پر ٹکا ہوا ہے جسے ختم کردینا چاہئے جس پر عدالت نے انہیں کہا کہ ریاستی حکومت کے جواب کی روشنی میں عدالت اس تعلق سے فریقین کی بحث کی سماعت کے بعد فیصلہ کریگی۔

آج عدالت میں سینئر ایڈوکیٹ او پی تیواری کے ساتھ ایڈوکیٹ عارف علی، ایڈوکیٹ فرقان و دیگر موجود تھے۔

جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی نے قانون کو شہریوں کی آزادی اور خودمختاری پر ایک حملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس قانون کی آڑ میں ایک فرقہ کو نشانہ بنانا غلط ہے۔انہوں نے کہا کہ کچھ ریاستوں میں مذہبی آزادی پر قدغن لگانے کی غرض سے نام نہاد لوجہاد کی آڑمیں قانون سازی آئین کے رہنما اصولوں کے خلاف ہے اور یہ قانون شہریوں کی آزادی اور خود مختاری پر ایک حملہ ہے جبکہ آئین میں ملک کے ہر شہری کو نہ صرف مکمل مذہبی آزادی دی گئی ہے بلکہ اسے اپنی پسند اور ناپسند کے اظہار کا بھی پورا اختیاردیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ قانون سازی کے وقت دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس کا اطلاق سب پر یکساں ہوگا، اور کسی فرقے کے ساتھ کوئی امتیاز نہیں برتا جائے گا لیکن اترپردیش جیسی اہم ریاست میں اس آئین مخالف قانون کا دھڑلے سے ایک مخصوص فرقہ کے خلاف استعمال ہورہا ہے، انہوں نے آگے کہا کہ حال ہی میں اسی طرح کے ایک معاملہ میں الہ آبادہائی کورٹ میں اترپردیش سرکارکی طرف سے جو حلف نامہ داخل کیا گیا ہے وہ اس افسوسناک سچائی کا آئینہ ہے، حلف نامہ میں دی گئی تفصیل کے مطابق اب تک جن 85 لوگوں کے خلاف اس قانون کے تحت مقدمے قائم کئے گئے ہیں ان میں 79مسلمان ہیں جبکہ دیگر عیسائی فرقے سے تعلق رکھتے ہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.